رہنما پاکستان تحریک انصاف و سابق وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ پاکستان میں پیسہ نہیںآ رہا بلکہ جارہا ہے، 79فیصد سرمایہ کار کا کہنا ہے کہ پاکستان غلط سمت کی طرف جارہا ہے،موجودہ حکومت قرضہ لے کر ڈالر کی ضرورت کو پورا کررہی ہے،اسٹیٹ بینک کے ذخائر 4.3بلین پر آگئے ہیں، اسٹیٹ بنیک کے گورنر کو چیمبرآف کامرس میں تاجروں کے وفد نے آڑے ہاتھوں لیا،کوئی ملک بھی پیسے دینے کو تیار نہیں، سب نے قرضے کو آئی ایم ایف کے پروگرام کے ساتھ جوڑ دیا،حکومت پاکستان نے کہا کہ مالیاتی خسارہ 4.6سے 4.9پرآئے گا، اس وقت پاکستان کے ذخائر کم اور اخراجات زیادہ ہیں،گر حکومت انتخابات کے دوران ان مطالبات پر عمل کرتی ہے تو حکومت کو اس سے انتخابات میں کافی مشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے ،یہ لوگ چند ہفتوں میں بھاگ جائیںگے۔جمعرات کے روز لاہور میں جمشید اقبال چیمہ کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے رہنما پاکستان تحریک انصاف و سابق وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا کہ موجودہ حکومت کہہ رہی ہے کہ ترقی کی شرح 1.5فیصد ہے لیکن ہم کہتے ہیں کہ ترقی کی شرح منفی ہے،زراعت اور صنعتی ترقی کی شرح منفی ہے ، کاروبار بند ہورہے ہیں،یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ جی ڈی پی ترقی کرے گی، ایل ایس ایم کی شرح منفی 5فیصد ہیں،گزشتہ 6ماہ میں درآمدات منفی 16فیصد اور ترسیلات زر منفی 19فیصد ہیں، لوگوں نے دسمبر میں پاکستان سے 17ملین ڈالر نکالے ۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں پیسہ نہیںآ رہا بلکہ جارہا ہے،سروے کے مطابق 79فیصد سرمایہ کار کہتا ہے کہ پاکستان غلط سمت کی طرف جارہا ہے،جو ایف ڈی آئی 57فیصد کم ہیں تو اگر ڈالر آنے کم ہوگئے تو اسے کیسے ٹھیک کیا جائے گا، موجودہ حکومت قرضہ لے کر ڈالر کی ضرورت کو پورا کررہی ہے،ہمیں کہاجا تا تھا کہ ہم نے قرضہ زیادہ لے لیا ہے،موجودہ حکومت نے 6.5ارب کا قرضہ گزشتہ 6ماہ میںلیاجو سالانہ 13ارب ڈالر ہوگا،ہم نے چار سالوں میں مجموعی طورپر 19ارب ڈالر کا قرضہ لیا جس پر شور کیا گیا،ملک میں کاروبار ختم ہورہے ہیں،5700کنٹینرز بندرگاہ پر کھڑے ہیںجن کی ادائیگی نہیں کی گئی۔سابق وزیر خزانہ نے کہا کہ 4 سے 5بلین ڈالر کی ایل سی روکی ہوئی ہے،جب وزیراعظم شہباز شریف ترکی گئے تو ترک ائیر لائن نے کہا کہ ہمارے 24ملین ڈالر بقیہ جات واجب الادا ہیں،اسٹیٹ بینک کے ذخائر 4.3بلین پر آگئے ہیں، گزشتہ روز اسٹیٹ بنیک کے گورنر کو چیمبرآف کامرس میں تاجروں کے وفد نے آڑے ہاتھوں لیا،کوئی ملک بھی پیسے دینے کو تیار نہیں، سب نے قرضے کو آئی ایم ایف کے پروگرام کے ساتھ جوڑ دیا۔شوکت ترین نے کہا کہ سعودی وزیرخزانہ کی جانب سے کہا گیا کہ جب تک لوگ گرانٹ نہیں دینگے تو ہم پاکستان میں سرمایہ کاری نہیں کریںگے، اسی طرح عالمی بینک نے 1.1ارب کے قرضے کو روک دیا،
سب نے آئی ایم ایف کے پروگرام پر دستخط کرنے کا کہا،پروگرام پر دستخط دو وجوہات کی بنا پر نہیں ہورہے،ایک وجہ یہ ہے کہ آئی ایم ایف کی جانب سے کہا گیا کہ حکومت پاکستان نے کہا کہ مالیاتی خسارہ 4.6سے 4.9پرآئے گا، اس وقت پاکستان کے ذخائر کم اور اخراجات زیادہ ہیں، توانائی کے شعبے میں 123ملین سے زیادہ کا خرچہ ہورہا ہے ،آئی ایم ایف نے حکومت پاکستان کو عوام پر 700بلین کے نئے ٹیکسز لگانے کا کہا، دوسری وجہ یہ ہے کہ کرنسی کے دوریٹ نہیں ہوسکتے، پہلاریٹ 227روپے جبکہ دوسرا ریٹ 270ہے، اس بنا پر ڈالر کو کنٹرول نہیں کیا جاسکتا۔ رہنما پی ٹی آئی نے کہا کہ اگر حکومت انتخابات کے دوران ان مطالبات پر عمل کرتی ہے تو حکومت کو اس سے انتخابات میں کافی مشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے ،یہ لوگ چند ہفتوں میں بھاگ جائیںگے، انہوں نے چیزوں کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ کیا، عوام اور ہم ان کو نہیں چھوڑیں گے جہاں مرضی جائیں۔ اس موقع پر رہنما پی ٹی آئی جمشید اقبال چیمہ نے کہا کہ پاکستان کے زراعت 75ارب ڈالر کے ہیں جن میں سے 45ارب ڈالر لائف سٹاک کی ہے جبکہ 30ارب ڈالر کی فصلیں ہیں، پاکستان میں گزشتہ گیارہ ماہ میں 3.5ارب ڈالر کھانے کا تیل آیا،جو کہ آئی ایم ایف کے تین سال کے پروگرام کے برابر ہے،اگر زراعت میں ترقی کی جائے تو صنعت میں بھی ترقی آئے گی اس سے روزگار کے مواقع فراہم ہونگے، غربت میں کمی آئے گیااور غذائی قلت کا خاتمہ ہوگا۔
انہوں نے کہاکہ اگر پاکستان کی گندم کی پیداوارکی بات کی جائے تو پاکستان کی سالانہ 10ارب کی گندم کی پیداوار ہے،4ارب ڈالر کی چاول کی فصل پیدا کررہے ہیں، 5ارب ڈالر کا خوردنی تیل کی پیداوار کررہے ہیں،گزشتہ سال زراعت میں 4ارب ڈالر کی ترقی ہوئی۔ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت میں کپاس کی فصل 40فیصد کمی واقع ہوئی، چاول کی پیدوار میں 25 فیصد کمی ہوئی، چینی کی پیداوار میں 20فیصد کمی ہوئی،ہرشے کی پیداوار میں کمی ہورہی ہے،اگر ہم پوٹری صنعت کاجائزہ لیں تو ان کے ساتھ موجودہ حکومت نے کیا کیا، سویا بیم کے جہازوں کو بندرگاہ پر روکا گیا جس کی وجہ سے 1100ارب کی انڈسٹری کو تباہ کرنے کی کوشش کی گئی، اس کا نقصان عوام کو ہورہا ہے،پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار پوٹری 500ارب روپے سے مہنگا ہوا،16فیصد یوریا کا استعمال کم ہورہا ہے،31فیصد ڈی اے پی کا استعمال کم ہورہا ہے،زراعت کی ضروریات کو استعمال نہیں کیا جارہا جس کی وجہ سے فصل کو نقصان ہورہا ہے۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی