پاکستان خوردنی تیل کی پیداوار بڑھانے کے لیے کوشاں ہے، پاکستان میں السی کی کاشت کا رقبہ 9000-9500 ہیکٹیئر تک پہنچ گیا ، پاکستان میں السی کی اوسط پیداوار 692 کلوگرام فی ہیکٹر تک کم ہے،پاکستان اور چین السی کی کاشت میں تعاون کو فروغ د یں، چین کے تعاون سے پاکستانی کاشتکار اپنی برآمدات میں اضافہ کر سکتے ہیں۔چائنہ اکنامک نیٹ کے مطابق زرعی ٹیکنالوجی کے ذریعے السی کے کاشتکاروں کو بااختیار بنانا ہمار ی صرف شروعات ہے۔ سندھ ایگریکلچر یونیورسٹی کے شعبہ سوائل سائنس کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر اے ڈبلیو گنڈاہی نے السی تعاون پر منعقدہ ایک سیمینار میں کہا کہ ہمارا تعاون کا منصوبہ روزگار کے مواقع پیدا کرکے، تجارت میں اضافہ اور السی سیڈکی ویلیو چین کی مجموعی کارکردگی کو بہتر بنا کر فریقین کی اقتصادی ترقی میں کردار ادا کرسکتا ہے۔ پاکستان خوردنی تیل کی پیداوار بڑھانے کے لیے کوشاں ہے۔ خوردنی تیل کی پیداوار بڑھانے اور درآمدات پر انحصار کم کرنے کے ساتھ ساتھ آئل سیڈ کے کاشتکاروں کے منافع کو بہتر بنانے کے لئے پہلی جامع نیشنل آئل سیڈ پالیسی کی تجویز دی گئی ہے۔ چائنہ اکنامک نیٹ کے مطابق پروفیسر گنڈاہی نے کہا کہ اب تک، پنجاب اور سندھ پاکستان میں السی کی کاشت کے بڑے صوبے ہیں، جو بالترتیب 47 فیصد اور 53 فیصد رقبے پر مشتمل ہیں۔ پچھلے پندرہ سالوں سے السی کی کاشت کا رقبہ جامد ( 9000-9500 ہیکٹیئر) رہا ہے،'' پروفیسر گنداہی نے کہا اس طرح کی اہم نقد آور فصل کے رقبے اور پیداوار میں اضافہ کرنا واضح طور پر ضروری ہے۔ جبکہ پاکستان میں السی کے کاشتکار کم قیمتوں، پانی کی کمی، معیاری بیج کی کمی اور روایتی بیماریوں، آب و ہوا کی تبدیلی سمیت متعدد رکاوٹوں سے پریشان ہیں۔ چائنہ اکنامک نیٹ کے مطابق مجموعی طور پر، ان چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے حکومت، تحقیقی اداروں اور نجی شعبے کی طرف سے تکنیکی مدد، بیج کی بہتر اقسام اور کاشتکاروں کو تربیت فراہم کرنے کے لئے مربوط کوششوں کی ضرورت ہے، ظاہر ہے کہ پاکستان اور چین کے درمیان زرعی تعاون کو کبھی نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔
چائنہ اکنامک نیٹ کے مطابق سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے پروفیسر نے اس بات پر زور دیا کہ چین زرعی مصنوعات پیدا کرنے والا ایک بڑا ملک اور کاشت کاری کے لیے جدید ٹیکنالوجی فراہم کرنے والا ملک ہے جس میں بیجوں کی ترقی، آبپاشی اور میکانائزیشن شامل ہیں۔ اس کے علاوہ دنیا کا سب سے بڑا صارف ہونے کے ناطے چین مزید مواقع کا اشتراک کر سکتا ہے جس کے ذریعے پاکستانی کاشتکار اپنی برآمدات میں اضافہ کر سکتے ہیں جس سے آمدنی میں بہتری آئے گی اور پاکستان میں ویلیو چین کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکیں گے۔ چائنہ اکنامک نیٹ کے مطابق انہوں نے کہا کہ سندھ ایگریکلچر یونیورسٹی ٹنڈوجام اور گانسو اکیڈمی آف ایگریکلچرل سائنسز کے درمیان تعاون سے پاکستانی اور چینی کاشتکاروں، محققین اور ماہرین کے درمیان علم اور مہارت کی منتقلی میں مدد مل سکتی ہے۔ مشترکہ تحقیق و ترقی کے ذریعے دونوں ممالک میں السی کے کاشتکاروں کو درپیش چیلنجوں کو بتدریج حل کیا جائے گا۔ چائنہ اکنامک نیٹ کے مطابق اسی روز پاک چین فلکس ریسرچ اینڈ انوویشن حب کی نقاب کشائی کی تقریب بھی منعقد ہوئی۔ جی اے اے ایس کے کراپ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے محقق چاو ای نے چائنا اکنامک نیٹ کو بتایا کہ پاکستان میں السی کی اوسط پیداوار 692 کلوگرام فی ہیکٹر تک کم ہے، لہذا جلد از جلد پاکستان کی آب و ہوا اور مٹی کے حالات کے لئے موزوں السی کی اقسام کا انتخاب اور کاشت کرنا بہت اہمیت کا حامل ہے۔ چائنہ اکنامک نیٹ کے مطابق معلوم ہوا کہ جی اے اے ایس کی نئی السی کی اقسام ، لونگیا سیریز ، شمال مغربی چین میں کم بارش کے ساتھ خشک آب و ہوا کے حالات کے مطابق منتخب کی جاتی ہیں۔ کاشت کے تجربات میں، پیداوار عام طور پر مقامی اقسام کے مقابلے میں 10 فیصد سے زیادہ ہے، اور بیماریوں اور کیڑوں کے خلاف مزاحمت زیادہ تسلی بخش ہے. اب تک لونگیا نمبر 11، نمبر 14 اور نمبر 15 کو ابتدائی طور پر پاکستان میں کاشتکیا چکا ہے۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی