تحریر ۔آفتاب چوہدری
کسی بھی معاشرے میں اپنے حقوق کے حصول کے لیے پر امن جدو جہد کرنا ہر شہری کا حق ہوتا ہے اور اس میں قانون اور آئین کے اندر رہ کر اپنے مطالبات کو تسلیم کرانے کے لئے مختلف طریقے استعمال کئے جاتے ہیں،حکومت وقت ان پر امن تحریکوں کے مطالبات کو سو فیصد تو نہیں لیکن جائزہ مطالبات کو تسلیم کرتی ہے، اسی طرح آزاد کشمیر میں جاری بجلی اور آٹے کی سستی فراہمی اور سرکاری وسائل کے بے دریغ استعمال کو روکنے کے لئے شروع کی گئی تحریک کے کچھ مطالبات حکومت نے تسلیم کئے ہیں ،اس تحریک کی سربراہی جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے ارکان کے پاس ہے جس میں آزاد کشمیر بھر سے زیادہ تر تاجر تنظیموں کے نمائندے شامل ہیں اور یہ کمیٹی نہ صرف تحریک کے آئندہ لائحہ عمل کا اعلان کرتی ہے بلکہ انتظامیہ اور حکومت سے مذاکرات بھی اسی ایکشن کمیٹی کی ذمہ داری ہے ، لیکن افسوس کی بات ہے اس تحریک کی آڑ میں سوشل میڈیا کے ذریعے پاکستان کے خلاف زہر اگلا جا رہا ہے اور اس میں آزاد کشمیر کے نوجوان طبقے کی طرف سے سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز پر غیر ذمہ دارانہ پوسٹس سامنے آ رہی ہیں اور ان میں اپنے مطالبات کو اجاگر کرنے کی بجائے پاکستان کے خلاف باتیں کی جا رہی ہیں ،سوشل میڈیا کے اس پرا پیگنڈا کا تمام تر فائدہ دشمن ملک اٹھا رہا ہے اور ان پوسٹوں کو بنیاد بنا کر دشمن کا میڈیا پاکستان کے خلاف دن رات خبروں، تجزیوں اور تبصروں میں مصروف عمل ہے حالانکہ جن نوجوانوں کی پوسٹوں کو بنیاد بنا کر دشمن کا میڈیا پاکستان کے خلاف چیخ رہا ہے ان نوجوانوں کو کشمیر اور پاکستان کی تاریخ سے واقفیت تک نہیں، 11مئی 2024ء کے احتجاج کے بعد پاکستان کے خلاف جس نفرت انگیزی کو طول دیا جا رہا ہے اس کے پیش نظر یہاں کچھ حقائق کا تذکرہ کرنا انتہائی ضروری ہے اور جوائنٹ ایکشن کمیٹی اور بالخصوص ان نوجوانوں کو پاکستان کے خلاف پراپیگنڈے کا سلسلہ بند کرنا ہو گا ، جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے عہدیداروں کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ اگر پاکستان سے ایک دن اشیائے ضروریہ بالخصوص اشیائے خور و نوش آزاد کشمیر نہ آئیں تو عوام کا کیا حال ہوتا ہے
اس ایکشن کمیٹی کے نمائندوں سے بہتر ذخیرہ اندوزی کو ئی نہیں سمجھتا کیونکہ ان نمائندوں میں اکثریت تاجر برادری کی ہے اور جب اشیاء کی قلت اور مہنگا ہونے کی خبر سامنے آتی ہے تو سب سے زیادہ تاجر ہی فائدہ اٹھاتے ہیں، جس پاکستان کو گالی دی جارہی ہے وہ آزاد کشمیر کے عوام کو روٹی اور کپڑے سمیت ہر طرح کی اشیاء کی فراہمی کا واحد ذریعہ ہے کیونکہ آزاد کشمیر کے لوگ سوشل میڈیاکے ذریعے پاکستان کو گالی دینے میں تو بہت آگے نکل جاتے ہیں لیکن صبح و شام ان کے گھروں میں چولہا جلانے کے لئے ماچس کی جو تیلی استعمال ہوتی ہے وہ بھی ان کی اپنی نہیں بلکہ پاکستان سے جاتی ہے ،اگر پاکستان کی طرف سے ایک ہفتہ کے لئے آٹے کی فراہمی روک دی جائے تو خطے میں قحط کا سماں پیدا ہو جائے ،خوراک ولباس سے لیکر تعمیراتی میٹریل اور بنیادی اشیائے ضروریہ سب پاکستان سے جاتی ہیں آزاد کشمیر میں تو سوئی تک نہیں بنتی ، اور تو اور جو لوگ پاکستان کو گالی دیتے ہیں اگر ان کو سر درد بھی ہو جائے تو وہ راولپنڈی اور اسلام آباد کے سرکاری ہسپتالوں کا رخ کرتے ہیں اور یہاں آکر علاج معالجے کی سہولیات سے مستفید ہوتے ہیں، جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے ارکان اور ان کے خاندانوں کے افراد اسلام آباد کے پرائیویٹ ہسپتالوں میں علاج معالجے کی بہتری سہولیات حاصل کرتے ہیں جبکہ روز گار اور تعلیم کیلئے بھی آزاد کشمیر کے عوام بالخصوص نوجوان بچے اور بچیاں پاکستان کے شہروں میں قیام پذیر ہیںجویہاں پڑھائی کے ساتھ ساتھ محنت مزدوری کر کے اپنے خاندانوں کی کفالت کر رہے ہیں
پاکستان میں کشمیری باشندوں کو علاج ،تعلیم ،کاروبار اور روز گار کے میدان میں کسی تفریق کا سامنا نہیںاور کبھی کسی کشمیری کو کسی فیکٹری ، کاروباری مرکز یا یونیورسٹی کالج میں کشمیری ہونے کی بنیاد پر درجہ دوم کا شہری تصور نہیں کیا گیا بلکہ بے شمار جگہوں پر پرائیویٹ اور سرکاری محکموں میں کشمیری اعلی پوسٹوں پر فائز ہیں، پاکستان کے مختلف شہروں میں کشمیری باشندوں نے بڑے پیمانے پر نہ صرف جائیدادیں خرید رکھی ہیں بلکہ کشمیری لوگ کئی ہاوسنگ سوسائٹیوں کے مالک ہیں جن کی مالیت کروڑوں نہیں اربوں روپے ہے ، مندرجہ بالا حقائق تلخ ہیں ،جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے ذمہ داران ان حقائق سے بخوبی آگاہ ہیں اس لیے ایکشن کمیٹی پریہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی تحریک کو بچانے اور اسے کامیاب بنانے کے لئے حکومت آزاد کشمیر کی بجائے پاکستان کو ہدف تنقید نہ بنائیں اور جولوگ پاکستان مخالف پراپیگنڈے میں مصروف ہیں ان کو نہ صرف روکیں بلکہ انہیں یہ با ور کرایا جائے کہ اگر وہ اپنی سمت درست نہیں کرینگے تو اس کا تمام تر نقصان تحریک کو ہو گا کیونکہ جس ہندوستان کو خوش کرنے کے لئے پاکستان کو گالی دی جاتی ہے اس نے مقبوضہ کشمیر میں عوام کے ساتھ جو رویہ روا رکھا ہوا ہے وہ صرف مقبوضہ کشمیر کے عوام ہی جانتے ہیں اس لیے آزادی کی نعمت کی قدر کرتے ہوئے محسن کش نہ بنیں۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی