پاکستان دنیا میں مرچ کے 10بڑے برآمد کنندگان ممالک میں شامل،66ممالک کو مرچ کی برآمدات جاری،افلاٹوکسن، پھپھوندی اوربیکٹیریا کی موجودگی کے باعث مسائل کا سامنا،افلاٹوکسن کو ختم کرنے کے لیے سولر ڈرائر ضروری ، عمرکوٹ، سندھ میں پہلا سولر ڈرائر یونٹ قائم کر دیا گیا۔ویلتھ پاک کی رپورٹ کے مطابق پاکستانی کسانوں کو مرچ کو خشک کرنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی استعمال کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اسے افلاٹوکسن سے بچایا جا سکے اور دنیا میں مرچ کے سب سے بڑے برآمد کنندگان میں سے ایک کے طور پر ملک کی پوزیشن دوبارہ حاصل کی جا سکے۔پاکستان دنیا میں مرچ کے سرفہرست 10 پیداواری ممالک میں سے ایک ہے پھر بھی اس کی پیداوار میں مسلسل کمی آ رہی ہے۔ حالیہ برسوں میں عالمی منڈی میں پاکستانی مرچ کی مانگ میں کمی واقع ہوئی ہے جس کی وجہ اس میں افلاٹوکسن اور پھپھوندی کی زیادہ مقدار کے علاوہ بیکٹیریا کی موجودگی ہے۔ نیشنل ایگریکلچرل ریسرچ سینٹر کے سینئر سائنٹیفک آفیسر نوشیروان نے ویلتھ پاک کو بتایا کہ پاکستان دنیا میں مرچ کے 10 بڑے برآمد کنندگان میں سے ایک ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس کی برآمد میں کمی واقع ہوئی ہے کیونکہ کچھ اہم مسائل نے ملک کی مرچ کی برآمد کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم تقریبا 66 ممالک کو مرچ برآمد کرتے تھے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم اس مارکیٹ کو کھو رہے ہیں کیونکہ مرچ میں افلاٹوکسن کی زیادہ مقدار کی وجہ سے بہت سی کھیپیں واپس بھیج دی جاتی ہیں جس کی بنیادی وجہ فصل کی کٹائی کے بعد بدانتظامی ہے۔انہوں نے کہا کہ افلاٹوکسن اکثر اس وقت دریافت ہوتا ہے جب فصلیںخشک سالی اور دیگر موسمی حالات سے تباہ ہو جاتی ہیںاور طویل عرصے تک زیادہ نمی کا سامنا کرتی ہیں۔
نوشیرواں نے بتایا کہ زیادہ تر کسان کھلی دھول سے بھرے میدانوں میں مرچ خشک کرتے ہیں جس سے فنگل انفیکشن ہو جاتا ہے۔ جوٹ کی بوریاںنمی جمع کرتی ہیں جس کے نتیجے میں ایسپرجیلوسس ہوتا ہے اور رنگ، چمک اور خوشبو ختم ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری برآمدی کھیپوں کی ایک بڑی تعداد کو ہماری صحت پر مضر اثرات کی وجہ سے ٹھکرا دیا جاتا ہے۔ افلاٹوکسین کی زیادہ مقدار کی وجہ سے ہونے والا شدید زہر مہلک ہو سکتا ہے کیونکہ یہ جگر کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ نوشیروان نے کہا کہ برآمدات کے لیے افلاٹوکسن سے پاک مرچ تیار کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسانوں کو ان کی برآمد کو نقصان پہنچانے والی مخصوص فنگس کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے نئی ٹیکنالوجی فراہم کی جانی چاہیے۔ مرچ کو فوری طور پر خشک کرنے سے افلاٹوکسن کے متاثر ہونے کے امکانات کم ہوجاتے ہیں۔ ہمارے کسانوں کے پاس جدید ترین ٹیکنالوجی جیسے سولر ڈرائر یا ڈرائینگ مشین تک رسائی نہیں ہے۔ افلاٹوکسن کو ختم کرنے کے لیے سولر ڈرائر بہت ضروری ہیںجو مرچیں بھی تیزی سے خشک کرتے ہیںجس میں صرف چار سے پانچ گھنٹے لگتے ہیںجب کہ دستی طور پر 10 اور 12 یا اس سے زیادہ دن بھی لگ جاتے ہیں۔انہوں نے کہاکہ وہ افلاٹوکسین کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے کوریا سے سولر ڈرائر لائے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ایسا ہی ایک یونٹ عمرکوٹ، سندھ میں قائم کیا گیاہے۔ہم جلد ہی این اے آر سی اسلام آباد میں ایک اور یونٹ کی توقع کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کسانوں کے لیے اسے قابل رسائی بنانے کے لیے تجارتی شعبے کو بھی ٹیکنالوجی فراہم کی جائے گی۔ اس حقیقت کے باوجود کہ یہ ٹیکنالوجی مہنگی ہے اگر اسے ملک میں متعارف کرایا جاتا ہے تو کسان اسے کریڈٹ کی بنیاد پر استعمال کر سکیں گے۔
کریڈٹ:
انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی