969 میگاواٹ کے نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پروجیکٹ (این جے ایچ پی پی) کو مکمل طور پر بند ہوئے 2 ماہ سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود تاحال اس مسئلے کی اصل وجہ اور حقیقت معلوم نہ ہوسکی۔میڈیا رپورٹ کے مطابق اس پیشرفت سے واقفیت رکھنے والے حکام نے بتایا ہے کہ یہ مسئلہ توقع سے زیادہ بڑا دکھائی دیتا ہے اور آزاد کشمیر میں مظفر آباد کے قریب واقع 500 ارب روپے کے نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کو کم از کم مزید 18 سے 24 ماہ تک بند رکھنا پڑ سکتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ہیڈریس ٹنل پریشر (ایچ آر ٹی) میں کمی اور سرنگ کے 17 کلومیٹر کے حصے میں پانی کی کمی کسی بڑی شگاف یا منہدم ہونے کی نشاندہی کرتا ہے، لیکن صحیح صورت حال ابھی تک واضح نہیں ہے۔969 میگاواٹ کی اپنی نصب شدہ صلاحیت کے باوجود، یہ منصوبہ کبھی کبھار اس سطح سے تجاوز کرجاتا ہے اور ایک ہزار 40 میگاواٹ تک پہنچ جاتا ہے، جب آپریشنل تھا تو یہ ایندھن کی قیمت کے بغیر نیشنل گرڈ کو سالانہ 5 ارب یونٹ سے زیادہ بجلی (کلو واٹ ہارز )تقریبا 10 روپے فی یونٹ کے اوسط ٹیرف پر فراہم کر رہا تھا۔رپورٹ کے مطابق ایک اہلکار نے بتایا کہ نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کے بند ہونے کا مطلب سالانہ 55 ارب روپے سے زیادہ کا براہ راست نقصان ہے، جبکہ اس کا بالواسطہ اثر مہنگے متبادل ایندھن کی شکل میں آئے گا، جس کی قیمت ایندھن کے ذرائع پر منحصر ہے، اور جس کی قیمت 90 سے 150 ارب روپے کے درمیان ہو سکتی ہے۔رپورٹ کے مطابق اس حوالے سے نیلم جہلم ہائیڈرو پاور کمپنی لمیٹڈ کے چیف ایگزیکٹو افسر محمد عرفان نے تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا، جب کہ واپڈا نے ابتدائی طور پر جواب دینے پر آمادگی ظاہر کرنے کے بعد کوئی تبصرہ نہ کرنے کا انتخاب کیا۔ 2 مئی کو واپڈا نے اس مسئلے کا پتا لگانے کے لیے اپنے ہیڈریس ٹنل پریشر کے فزیکل معائنہ کے لیے میگا پروجیکٹ کے مکمل بند ہونے کی باضابطہ تصدیق کی تھی۔
اس نے اعلان کیا تھا کہ پروجیکٹ کنسلٹنٹس اور بین الاقوامی ماہرین کے ساتھ مل کر ایک جامع منصوبہ تیار کیا جائے گا تاکہ مسئلہ کا سراغ لگنے کے بعد اس مسئلے کو دور کرنے کے لیے تدارک کے کام کیے جائیں۔بعد ازاں وزیراعظم نے 7 مئی کو جائے وقوعہ کا دورہ کیا اور تیسرے فریق کے ذریعے تحقیقات کروانے کا اعلان کیا، تاہم ان کے اعلان کے 2 ہفتے بعد ایک سابق بیوروکریٹ کی سربراہی میں ایک باضابطہ کمیٹی کا قیام عمل میں آیا۔اس وقت اس حادثے کی تحقیقات دو رکنی باڈی کر رہی ہے، جسے اس حادثے کی ذمہ داری کا تعین کرنے کا بھی کام سونپا گیا ہے۔ایک نوٹیفکیشن کے مطابق، سابق وفاقی سیکریٹری شاہد خان اور موجودہ آبی وسائل کے سیکریٹری سید علی مرتضی کی سربراہی میں کمیٹی 2 اپریل 2024 کے واقعے کے بعد نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پاروجیکٹ کی تعمیر میں خامیوں/ کوتاہیوں کی انکوائری کے لیے گزشتہ ماہ کے آخر میں تشکیل دی گئی تھی۔کمیٹی سے کہا گیا ہے کہ وہ اس منصوبے کی ٹیلریس ٹنل میں رکاوٹ کی وجہ معلوم کرنے کے لیے ستمبر 2022 میں تعینات کیے گئے ماہرین کے پینل کے نتائج/رپورٹ پیش کرنے میں تاخیر کی وجوہات کا پتہ لگائے اور پینل کی طرف سے پیش کی جانے والی حتمی رپورٹ کا جائزہ لے۔ایک سوال کے جواب میں اہلکار نے کہا کہ سخت حفاظتی انتظامات اور دسیوں کلومیٹرز تک پھیلے زیر زمین ڈھانچے کو دیکھتے ہوئے اگرچہ تخریب کاری کا امکان کم ہے، لیکن سرنگ کی بحالی کی حالیہ مشق کے پیش نظر اسے مکمل طور پر رد نہیں کیا جا سکتا۔انہوں نے بتایا کہ اس منصوبے پر اب سخت حفاظتی نگرانی کی جا رہی ہے اور امید ظاہر کی کہ کچھ بھی زیادہ عرصے تک پوشیدہ نہیں رہے گا۔ واپڈا کے مطابق ایچ آر ٹی پریشر میں اچانک تبدیلی 2 اپریل 2024 کو دیکھی گئی، پروجیکٹ کنسلٹنٹس کے مشورے کے مطابق انتظامیہ ایچ آر ٹی پریشر میں اتار چڑھا کی نگرانی کے لیے 6 اپریل سے 530 میگاواٹ کی محدود صلاحیت پر پلانٹ چلاتے رہے اور بغیر کسی مسئلے کے، مہینے کے آخر تک بجلی کی پیداوار جاری رکھی۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی