وزیر اعظم کی موسمیاتی تبدیلی کی معاون، رومینہ خورشید عالم نے موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے پائیدار زرعی طریقوں کی ضرورت پر زور دیا ھے جو عالمی غذائی تحفظ اور آبادی کی بہبود کے لیے انتہائی اہم ہیں۔ خوراک کے عالمی دن کے موقع پر اپنے پیغام میں انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی ایک دوسرے سے جڑے میکانزم کے ذریعے غذائی تحفظ اور پائیدار زراعت پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بڑھتا ہوا درجہ حرارت، بارش کے بدلے ہوئے پیٹرن، اور انتہائی موسمی حالات زرعی پیداواری صلاحیت کو خطرے میں ڈالتے ہیں، جس کے نتیجے میں خوراک کی قیمتوں اور کم آمدنی والے گروہوں میں غذائی قلت کے خطرے میں اضافہ ہوتا ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں 2050 تک مزید لاکھوں افراد کو بھوک کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ خورشید عالم نے موسمیاتی لچکدار زراعت کی فوری ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان موسمیاتی خطرات سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں شامل ہے، سیلاب اور گرمی کی لہروں جیسے شدید موسمی واقعات کا سامنا ہے جو زرعی پیداوار اور خوراک کے تحفظ کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ بڑھتی ہوئی زرعی ضروریات وسائل کے لیے مسابقت کو بڑھاتی ہیں، موسمیاتی چیلنجوں سے نمٹنے کے دوران بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کاشتکاری کے طریقوں میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ انھوں نے موافقت کی حکمت عملیوں پر زور دیتے ھوئے کہا کہ جیسے فصل کی گردش اور خشک سالی کے خلاف مزاحمت کرنے والی اقسام موسمی تغیرات کے خلاف برداشت کو بڑھاتی ھیں۔ پائیدار طریقوں پر تعلیم کے ذریعے مقامی کمیونٹیز کو بااختیار بنانا مقامی غذائی نظام کو مضبوط کرتا ہے اور بیرونی منڈیوں پر انحصار کم کرتا ہے۔ خورشید عالم نے مزید وضاحت کی کہ موسمیاتی تبدیلی خوراک کے معیار اور دستیابی کو متاثر کرتی ہے، خاص طور پر مثاثرہ علاقوں میں، غربت اور غذائی قلت میں اضافہ ہوتا ہے۔ انہوں نے تمام آبادیوں کے لیے مناسب غذائیت کو یقینی بناتے ہوئے موسمیاتی اثرات کو برداشت کرنے کے قابل پائیدار غذائی نظام قائم کرنے کے لیے فوری اقدامات پر زور دیا۔ انھوں نے مذید کہا کہ فصل کے متنوع نظام ماحولیاتی کارکردگی، مٹی کی زرخیزی اور حیاتیاتی تنوع کو بڑھا سکتے ہیں، جو موسمیاتی چیلنجوں کے درمیان غذائی تحفظ کے حصول میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی