ملک کے مختلف شہروں میں بارشوں کے باعث سیلابی صورتحال پیدا ہوگئی جس سے گلگت بلتستان، بلوچستان اور سندھ کے کئی علاقوں میں متعدد دیہات زیر آب آگئے جبکہ سینکڑوں ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہو گئیں۔ گلیشیئرز پگھلنے سے گلگت کے علاقے رحیم آباد کے برساتی نالے میں سیلاب سے زرعی زمینیں زیر آب آگئیں، استور میں پرشینگ کے مقام پر گزشتہ روز آسمانی بجلی گرنے اور سیلابی صورتحال سے کئی مکانات، فصلوں اور باغات کو نقصان پہنچا، بجلی کی سپلائی بھی متاثر ہوگئی ، متاثرہ گاوں میں امدادی کارروائیاں جاری ہیں۔ گلگت میں جگلوٹ گورو نالے میں شدید طغیانی کے بعد پانی کی صورتحال معمول پر آگئی ہے، رحیم آباد نالے میں سیلاب سے دریا کا بہا وکچھ دیر کیلئے رک جانے سے نشیبی علاقے اور زرعی زمینیں زیر آب آگئیں، دریائے ہنزہ نگر میں شدید سیلابی صورتحال سے گلگت شہر کے مضافاتی علاقے فیض آباد میں دریائی کٹا ومیں تیزی آگئی۔ دریائے چترال میں بھی گلیشیئرز پگھلنے سے اونچے درجے کا سیلاب ہے، متاثرہ علاقوں میں بحالی کا کام جاری ہے جبکہ بونی کے مقام پر متاثرین کیلئے خیمہ بستی بنادی گئی ہے اور متاثرہ پل کی جگہ عارضی پل کی تعمیر بھی جاری ہے۔ ادھر روہڑی کینال میں پڑنے والے 150 فٹ شگاف کو پر کرنے کا کام جاری ہے، انتظامیہ کے مطابق آج شگاف کو پر کرلیا جائیگاجبکہ سکھر کی تحصیل صالح پٹ میں بمبلی مائینر میں شگاف کو پرکرلیا گیا۔ دوسری جانب کھیرتھر پہاڑی سلسلے میں بارش سے گاج، سول ندی اور نلی ہلیلی میں طغیانی آگئی ہے، سیلابی ریلوں سے تحصیل جوہی کی 5 یونین کونسل متاثر ہوگئیں جبکہ فریدہ آباد کے 65 سے زائد دیہات کا جوہی سے رابطہ منقطع ہوگیا ہے۔ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ بارش کا پانی منچھر جھیل میں داخل ہونے سے جھیل میں پانی کی سطح بلند ہوگئی ،جھیل میں پانی بڑھنے پر دریائے سندھ میں خارج کیا جائے گا۔
خیرپور میں بارش سے کپاس، کھجور اور دیگر فصلوں کو بھی نقصان پہنچا ہے، نصیر فقیر جلالانی کے قریب پانی کے ریلوں کے دبا وسے حفاظتی بند ٹوٹ گیا۔ بلوچستان کے 25سے زائد اضلاع میں مون سون کی موسلادھار بارشوں کے باعث ندی نالوں میں طغیانی آگئی ہے، شاہی واہ کینال میں پڑنے والا شگاف پر نہیں کیا جا سکا، دریائے ناڑی بینک میں شگاف سے متعدد علاقے زیر آب آگئے اور سیلاب سے کچے مکان گرگئے۔ بلوچستان میں جون سے جاری بارشوں نے اگست شروع ہوتے زور پکڑ لیا ہے جس سے دریائے ناڑی اور تلی کا پانی بولان، نصیرآباد، جعفرآباد کو نقصانات پہنچاتا ہوا صحبت پور تک پہنچ گیا ہے۔ جھل مگسی، قلات، خضدار، سبی، کوہلو، ژوب، شیرانی اور زیارت میں بارشوں سے نشیبی علاقے زیرآب آنے سے رابطہ سڑکیں متاثر اور مکانات گرنے سے لوگ بے گھر ہوگئے ہیں۔ صوبائی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ مون سون بارشوں سے نمٹنے کیلئے تیار ہیں، سیلابی صورتحال سے نمٹنے کی تیاریوں کے تحت ہر ضلع میں سامان پہنچا دیا گیا ہے، اگر کوئی بڑی سیلابی صورتحال ہوتی ہے تو نمٹنے کیلئے متعلقہ علاقے میں سامان مہیا کرسکتے ہیں۔ پی ڈی ایم اے کی رپورٹ کے مطابق بلوچستان کے مختلف اضلاع میں پچھلے دو ماہ کے دوران مون سون بارشوں کے دوران رونما ہونے والے واقعات میں 15 افراد جان بحق جبکہ 35زخمی ہوئے ہیں۔ پی ڈی ایم اے کے مطابق بارشوں اور سیلابی ریلوں سے 100 سے زائد مکانات مکمل تباہ ہوئے ہیں جبکہ 180 مکانات کو جزوی نقصان پہنچا ہے، سبی ہرنائی ریلوے سیکشن پر بارشوں کے باعث 15 روز سے ٹرینوں کی آمد و رفت بند ہے۔ محکمہ موسمیات نے پیش گوئی کی ہے کہ بلوچستان میں مون سون کی بارشوں کا سلسلہ آئندہ ماہ ستمبر تک جاری رہنے کا امکان ہے۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی