اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے ہیں کہ لاپتہ افراد بازیاب نہ ہوئے تو وزیراعظم جوابدہ ہوں گے۔ ہائی کورٹ نے شیریں مزاری کی گرفتاری کے خلاف درخواست پر سماعت کی۔ ڈاکٹر شیری مزاری عدالت کے سامنے پیش ہوئیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ کلاسک کیس ہے لیکن وفاقی دارالحکومت میں شہریوں کے حقوق کا تحفظ نہیں ہو رہا ، آپ نے اگر تمام ایشوز کو ایڈریس کیا ہوتا تو ٹارچر کے الزامات کا معاملہ سامنے نا آتا۔انہوں نے کہا کہ علی وزیر کا کیس اس عدالت کے دائرہ اختیار میں نہیں لیکن وہ دو سال سے زیرحراست ہے، علی وزیر کے حلقے کے لوگوں کو پارلیمنٹ میں نمائندگی سے محروم رکھا جا رہا ہے، یہ بنیادی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے، پی ٹی ایم کے کیس میں بغاوت کا کیس بنا اس وقت ہم نے کہا تھا اس عدالت کے دائرہ اختیار میں بغاوت کا کیس نہیں بنے گا۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیا کوئی سول چیف ایگزیکٹو کہہ سکتا ہے کہ وہ Helpless (بے یار و مدگار) ہے ، شہباز گل کیس میں بھی ٹارچر کا الزام ہے اس کے علاوہ بھی کیسز پہلے سے تھے آپ کا کام ہے ان کو دیکھیں ، جو طاقت میں ہوتا ہے وہ اسی پولیس کو استعمال کرتا ہے پھر اپوزیشن میں آکر اسی کو برا بھلا کہتا ہے۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ یہ عدالت اس پر یقین نہیں رکھتی کہ کمیٹیاں بناتے رہیں ، جو لاپتہ افراد بچارے واپس آجاتے ہیں وہ پھر بولتے نہیں ، مجھے بھی خطرہ تھا کورٹ کی وجہ سے بچا ہوا ہوں ، امید ہے نو ستمبر سے پہلے لاپتہ افراد بازیاب ہو جائیں گے، دوسری صورت میں وزیراعظم جوابدہ ہوں گے ، عدالت نہیں چاہتی کہ معاملہ وہاں تک پہنچے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ عدالت کیسز وفاقی کابینہ کو بھیجتی رہی ہے لیکن وہ کچھ نہیں کرتے، وفاقی دارالحکومت میں لوگ محفوظ نہیں ہیں، انسانی حقوق کے تحفظ کرنے والوں کو ریاست پسند نہیں کرتی۔ عدالت نے کیس کی سماعت دو ہفتے تک ملتوی کردی۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی