لاہور ہائیکورٹ نے تشدد، اموات اور عصمت دری کے تمام مقدمات ایف آئی اے کو منتقل کرنے کا حکم دے دیا۔ جسٹس علی ضیا باجوہ نے 17 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کر دیا۔ ثریا بی بی نے درخواست دائر کی جس پر عدالت کی معاونت میاں علی حیدر ایڈووکیٹ نے کی۔ تحریری فیصلے کے مطابق حراستی موت اور تشدد کی روک تھام ایکٹ 2022 کے فوری نفاذ کو یقینی بنایا جا سکے، وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) اس ایکٹ سے متعلق تحقیقات پر خصوصی دائرہ اختیار رکھتی ہے لہذا پولیس کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ ان معاملات میں ملوث ہونے سے گریز کریں۔ فیصلے کے مطابق اعتراف جرم یا ثبوت حاصل کرنے کے مقصد سے کسی ملزم پر کسی بھی قسم کا تشدد کرنا سختی سے ممنوع ہے، ایکٹ 2022 کے نفاذ کے معاملے کو باضابطہ طور پر وزیر اعلی پنجاب کی توجہ میں لایا جائے، یہ مسئلہ وفاقی سیکریٹری وزارت داخلہ کے ذریعے وفاقی وزیر، وزارت داخلہ اور حکومت پاکستان کو بھی پیش کیا جائے، 2022 کے ایکٹ پر تیزی سے مکمل عمل درآمد کو یقینی بنائیں اور عمل درآمد میں مزید تاخیر کو روکنا ہے۔ عدالتی حکم کے مطابق فیصلے کی ایک نقل نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے چیئرپرسن اور ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل کو بھیجا جائے جبکہ پولیس حراست میں تشدد، موت یا عصمت دری سے متعلق شکایت فوری طور پر ایجنسی کو بھیج دیا جائے۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی