لاہور ہائیکورٹ نے حکومت کو 2002 سے قبل کا توشہ خانہ ریکارڈ پیش کرنے کا حکم دے دیا۔ لاہور ہائیکورٹ میں قیام پاکستان سے اب تک توشہ خانہ کی تفصیلات فراہمی کی درخواست پر سماعت ہوئی، کابینہ سیکرٹری ریکارڈ سمیت عدالت میں پیش ہوئے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ کابینہ نے 2002 سے اب تک کا توشہ خانہ کا ریکارڈ ڈی کلاسیفائیڈ کر دیا ہے کہ یہ تحائف کس نے خریدے، یہ سارا ریکارڈ ویب سائٹ پر ڈالا جائے گا، وہ ریکارڈ نہیں دے رہے کہ بیرون ملک سے یہ تحائف دیے کس نے ہیں۔ جسٹس عاصم حفیظ نے استفسار کیا کہ 2002 سے پہلے کا ریکارڈ آپ کے پاس نہیں ہے؟ جس پر وفاقی حکومت نے جواب دیا کہ 2002 سے پہلے کا ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ نہیں ہے۔ عدالت نے آئندہ سماعت پر کابینہ سیکرٹری کو 2002 سے پہلے کا توشہ خانہ ریکارڈ پیش کرنے کا حکم دے دیا۔ وفاقی حکومت کے وکیل نے کابینہ کا ریکارڈ ڈی کلاسیفائیڈ کرنے کا فیصلہ عدالت میں پیش کیا، درخواست گزار کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ حکومت کو سارا ریکارڈ عدالت کے سامنے رکھنا چاہیے۔ جسٹس عاصم حفیظ نے ریمارکس میں کہا کہ ایک دم سے چیزیں تبدیل نہیں ہوتیں، حکومت نے 2023 میں ریکارڈ ڈی کلاسیفائیڈ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ لاہور ہائی کورٹ نے کارروائی 13 مارچ تک ملتوی کر دی۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی