چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے انتخابات کیس میں ریمارکس دیئے ہیں کہ ا لیکشن کمیشن 8 اکتوبر کی تاریخ کیسے دے سکتا ہے؟ قانون کسی کو الیکشن ملتوی کرنے کا اختیار نہیں دیتا، عدالت ہی الیکشن کی تاریخ آگے بڑھا سکتی ہے، 1988 میں بھی عدالت کے حکم پر انتخابات آگے بڑھائے گئے تھے، عدالت زمینی حقائق کا جائزہ لے کر حکم جاری کرتی ہے، جس حکم نامے کا ذکر کر رہے ہیں اس پر عمل ہو چکا ہے۔ پیر کو چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل سپریم کورٹ کا تین رکنی بنچ پنجاب کے پی میں الیکشن التوا کیخلاف عمران خان کی درخواست کی سماعتکی ۔ وفاقی حکومت نے انتخابات کیس میں اپنا جواب جمع کراتے ہوئے پی ٹی آئی کی درخواست مسترد کرنے کی استدعا کردی۔ حکومت نے موقف اختیار کیا کہ یکم مارچ کا سپریم کورٹ کا فیصلہ اکثریت سے دیا گیا، تین رکنی بینچ متبادل کے طور پر تحریک انصاف کی درخواست پر سماعت نہ کرے۔ حکومت نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسی کے فیصلے کے بعد پی ٹی آئی درخواست مخر کی جائے، سپریم کورٹ کے جو ججز الیکشن کیس کو سن چکے ہیں، انھیں نکال کر باقی ججز پر مشتمل بینچ بنایا جائے، پہلے رانڈ میں دیا گیا الیکشن کا فیصلہ چار تین کی اکثریت سے دیا گیا۔ حکومت نے کہا کہ جسٹس اعجاز الاحسن پہلے رانڈ میں کیس سننے سے انکار کرچکے ہیں، چیف جسٹس اور جسٹس منیب اختر فیصلہ دینے والے بینچ کا حصہ تھے، چیف جسٹس اور جسٹس منیب اختر بھی اس کیس کو نہ سنیں۔ سماعت شروع ہوئی تو پی پی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کاہ کہ ہم کارروائی کا حصہ بننا چاہتے ہیں، ہم نے تو بائیکاٹ کیا ہی نہیں تھا ، ہمارے درخواستوں کے قابل سماعت ہونے اور بینچ کے دائرہ اختیار پر تحفظات ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اخبار میں تو کچھ اور لکھا تھا، اگر بائیکاٹ کرنا ہے تو عدالتی کارروائی کا حصہ نہ بنیں، بائیکاٹ نہیں کیا تو لکھ کر دیں۔ جسٹس منیب نے ریمارکس دیے کہ آپ ایک طرف بینچ پر اعتراض کرتے ہیں دوسری طرف کارروائی کا حصہ بھی بنتے ہیں ، حکومتی اتحاد کے اجلاس کا اعلامیہ پڑھ کر سنائیں،جو زبان اس میں استعمال کی گئی ہے، گزشتہ 48 گھنٹے سے میڈیا کہہ رہا ہے کہ اعلامیے کے مطابق سیاسی جماعتیں بینچ پر عدم اعتماد کر رہی ہیں، ہم پر اعتماد نہیں ہے تو دلائل کیسے دے سکتے ہیں، اگر اعلامیہ واپس لیا ہے تو آپ کو سن لیتے ہیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ کو کیا ہدایت ملی ہیں، حکومت عدالت کا بائیکاٹ نہیں کرسکتی؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ حکومت بائیکاٹ نہیں کرسکتی، حکومت آئین کے مطابق چلتی ہے۔ اٹارنی جنرل نے دلائل دیے کہ عمران خان کی درخواست میں الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا ہے، صدر کو کے پی میں تاریخ دینے کی بھی استدعا کی گئی ہے، درخواست کی بنیاد یکم مارچ کا عدالتی فیصلہ ہے، جس میں عدالت نے پنجاب کے لیے صدر اور کے پی کے لیے گورنر کو تاریخ دینے کا کہا تھا ، گورنر کے پی نے درخواستیں دائر ہونے تک کوئی تاریخ نہیں دی تھی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سوال اٹھایا تھا کہ الیکشن کمیشن 8 اکتوبر کی تاریخ کیسے دے سکتا ہے؟ قانون کسی کو الیکشن ملتوی کرنے کا اختیار نہیں دیتا، عدالت ہی الیکشن کی تاریخ آگے بڑھا سکتی ہے، 1988 میں بھی عدالت کے حکم پر انتخابات آگے بڑھائے گئے تھے، عدالت زمینی حقائق کا جائزہ لے کر حکم جاری کرتی ہے، جس حکم نامے کا ذکر کر رہے ہیں اس پر عمل ہو چکا ہے۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی