i پاکستان

جنوبی افریقہ سے جعلی دستاویزات پر منگوائے گئے 24 بندر این جی او کے سپرد، دو بندر کسٹم حکام کی تحویل میں ایئرپورٹ پر ہلاک ہوگئےتازترین

March 03, 2025

جنوبی افریقہ سے منگوائے گئے بندروں کی غیر قانونی کھیپ کو غیر سرکاری جانوروں کی فلاح و بہبود کی تنظیم کے حوالے کر دیا گیا، 26 میں سے دو بندر کسٹم حکام کی تحویل میں ایئرپورٹ پر ہلاک ہوچکے ہیں۔ میڈیارپورٹ کے مطابق ذرائع کا کہنا ہے کہ کسٹم عملے نے جنوری میں کراچی ایئرپورٹ پر 26 بندروں کی کھیپ کو ضبط کیا تھا، جن میں جنوبی افریقہ سے مبینہ طور پر جعلی نو آبجیکشن سرٹیفکیٹ (این او سی) پر میسرز خیال انٹرپرائزز کی جانب سے درآمد کیے جانے والے بندر شامل تھے۔انہوں نے دعوی کیا کہ کسٹمز کو جیسے ہی معلوم ہوا کہ این او سی جعلی ہے، تو انہوں نے صوبائی محکمہ جنگلی حیات، کراچی چڑیا گھر اور اینیمل کوارنٹائن ڈیپارٹمنٹ (اے کیو ڈی) کے ساتھ فوری رابطے کیے۔کسٹم کے عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ہمیں محکمہ قرنطینہ کی جانب سے فوری ردعمل موصول ہوا، جس نے جانوروں کو فٹ قرار دیا، لیکن محکمہ جنگلی حیات نے کافی تاخیر کے بعد جواب میں کہا کہ قانون کے تحت غیر قانونی طور پر درآمد کی گئی کھیپ جنوبی افریقہ کو واپس کردی جائے۔انہوں نے کہا کہ درآمد کنندہ نے نقل و حمل کے زیادہ اخراجات کی وجہ سے ایسا کرنے سے انکار کردیا، جب کہ کراچی چڑیا گھر یا محکمہ وائلڈ لائف کی جانب سے ان جانوروں کو عارضی پناہ گاہ فراہم کرنے پر کوئی جواب نہیں موصول ہوا۔کسٹم حکام کے مطابق ہمیں ہنگامی بنیادوں پر کارروائی کرنی پڑی، کیوں کہ 2 بندر پہلے ہی مر چکے تھے، اور دوسرے جانوروں کی زندگیاں خطرے میں تھیں۔

انہوں نے کہا کہ ہماری جگہ خاص طور پر سامان کے لیے ہے، اس کے علاوہ، ہم ان جانوروں سے صحت کو لاحق خطرات کے بارے میں فکرمند تھے، جو ہمارے عملے کے لیے پیدا ہوسکتے ہیں، ایک اور کسٹم افسر نے وضاحت کی اور کہا کہ صورتحال نے محکمہ کسٹم کو جانوروں کی فلاح و بہبود کی ایک غیر منافع بخش تنظیم، اے سی ایف اینیمل ریسکیو کے حوالے کرنے پر مجبور کیا۔انہوں نے کہا کہ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ رابطہ کاری میں تاخیر کی وجہ سے 2 بندروں کی موت ہو گئی، یہ شہر کی تاریخ میں پہلی بار ہے کہ بچائے گئے جانوروں کو سرکاری تحویل میں پناہ نہیں ملی۔انہوں نے نشاندہی کی کہ ماضی میں غیر قانونی شپمنٹ سے برآمد مختلف انواع کے جانور کراچی چڑیا گھر کے حوالے کیے گئے تھے۔ رپورٹ کے مطابق اے سی ایف اینیمل ریسکیو کی عائشہ چندریگر سے موقف کیلئے رابطہ نہیں ہوسکا۔تاہم، این جی او نے اپنے فیس بک پیج پر ایک ویڈیو اپ لوڈ کی اور پوسٹ کیا کہ کسٹم گودام میں بندر پنجروں سے ہاتھ باہر نکال کر کھانے کی بھیک مانگ رہے تھے، وہ صدمے اور بھوک سے مر رہے تھے، کئی دنوں تک تابوت میں کیریئر کی طرح سفر کر رہے تھے۔این جی او کی جانب سے کہا گیا کہ اس لیے ہم جلدی سے انہیں ایک پرسکون جگہ پر لے آئے، اور آخر کار جب انہوں نے کھانا شروع کیا تو وہ پرسکون ہو گئے، جب ہم نے انہیں کھانا کھلایا، تو ہم نے جلدی سے بلیوں کے انکلوژر سے گرلز (GRILLS) لیں، تاکہ ان بندروں کے لیے فوری طور پر ایک عارضی انکلوژر بنایا جا سکے۔ این جی او کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ان گرلز کی مدد سے ہم ان کے لیے بڑا باڑہ بنانے جارہے ہیں، تاکہ انہیں ان کی قدرتی رہائش گاہ کے قریب بیرون ملک کسی پناہ گاہ میں بھیجنے سے پہلے ایک عارضی سہولت کی طرح انہیں آباد کرسکیں، این جی او نے بندروں کی بحالی کی سہولت کے لیے عطیہ دینے کی اپیل کی۔ سندھ وائلڈ لائف کے کنزرویٹر جاوید احمد مہر نے دعوی کیا کہ محکمہ کی جانب سے جواب دینے میں کوئی تاخیر نہیں کی گئی۔

محکمہ کسٹمز کو تحریری طور پر مطلع کیا گیا تھا کہ جانوروں کی غیر قانونی کھیپ (نئے قانون، سندھ وائلڈ لائف پروٹیکشن، پریزرویشن، کنزرویشن اینڈ مینجمنٹ ایکٹ 2020 کے تحت) اسی ایئر لائن کے ذریعے برآمد کنندہ ملک کو واپس کرنے کی ضرورت ہے، جو اسے لے کر آئی تھی۔ بین الاقوامی قانون کے تحت ایئرلائنز کی ذمہ داری ہے کہ وہ جانوروں کی نقل و حمل سے قبل متعلقہ ملک سے دستاویزات کی تصدیق کرائیں۔انہوں نے کہا کہ بظاہر محکمہ کسٹم اس ضرورت کو پورا نہیں کر سکا، اور محکمہ کو بعد میں(سوشل میڈیا کے ذریعے) پتہ چلا کہ بندروں کو جانوروں کی فلاح و بہبود کی ایک تنظیم کے حوالے کردیا گیا ہے۔کسٹم حکام نے بتایا کہ مقدمہ درج کرلیا گیا ہے اور فوجداری کارروائی شروع کردی گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ گائیڈ لائنز کے لیے محکمہ موسمیاتی تبدیلی نے وفاقی وزارت موسمیاتی تبدیلی سے رابطہ کیا تھا، جس نے جنگلی جانوروں اور نباتات کی خطرے سے دوچار اقسام میں بین الاقوامی تجارت سے متعلق کنونشن (سی آئی ٹی ای ایس) کا انتظام کیا تھا۔ اس میں جنگلی حیات کی برآمد اور درآمد کے لیے دستاویزات کا اجرا بھی شامل تھا۔جانوروں کی تحویل کے بارے میں پوچھے جانے پر وائلڈ لائف کے افسر نے کہا کہ ہمیں اس بات کا کوئی علم نہیں ہے کہ آیا یہ بندر قیدی نسل کے ہیں، یا جنگل سے پکڑے گئے ہیں، چونکہ معاملہ کسٹم کورٹ میں اس لیے ہم فی الحال کیس پراپرٹی میں مداخلت نہیں کرسکتے۔

کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی