پاکستان نے کہا ہے کہ یمن میں جاری تنازعے کو موثر سفارتکاری اور اجتماعی رد عمل کے ذریعے حل کیا جائے، فوجی آپریشن سے یہ تنازعہ مزید بڑھ جائیگا۔یہ بات اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے سلامتی کونسل سے خطاب کے دوران کہی۔ منیر اکرم نے کہا کہ یمن میں جاری تنازعہ مقامی سے علاقائی اور بالآخر عالمی مضمرات کے ساتھ ایک بحران کی صورت اختیار کر چکا،اسے موثر سفارت کاری اور اجتماعی ردعمل کے ذریعے حل کیا جائے، فوجی آپریشن دوبارہ شروع کرنے سے یہ تنازعہ مزید بڑھ جائیگا،اس تنازعے کی وجہ سے ملک کی تقریبا نصف آباد ی کا انحصار انسانی ہمدردی کی بنیاد پر دی جانے والی امداد اور تحفظ پر ہے۔پاکستانی مندوب نے کہا کہ دسمبر 2023 کے مذاکرات میں ہونے والی پیش رفت کو محفوظ اور مستحکم کرنا اور دیرپا امن کے لئے وعدوں پر مکمل عمل درآمد کو یقینی بنایا جاناچاہیے۔پاکستانی مندوب نے یمن کے لئے اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی ہنس گرنڈ برگ کی جاری ثالثی کی کوششوں کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ روڈ میپ ملک گیر جنگ بندی، منظم سیاسی عمل، تنازعات سے متاثرہ ملک کو درپیش اہم اقتصادی اور انسانی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے قابل عمل راستہ ہے۔
یمن کی طرف سے پکڑے گئے بحری جہاز گیلیکسی لیڈر کے عملے کی رہائی کا خیرمقدم کرتے ہوئے پاکستانی مندوب نے انصار اللہ کی طرف سے اقوام متحدہ کے اہلکاروں اور بین الاقوامی اور قومی این جی اوز اور سفارتی مشنوں کے عملے کی من مانی حراست کی شدید مذمت کی۔ انہوں نے کہا کہ ہم صعدہ میں حوثیوں کے زیر حراست ورلڈ فوڈ پروگرام کے عملے کے ایک رکن کی المناک موت پر غمزدہ ہیں اور اس کے اہل خانہ اور چاہنے والوں سے تعزیت کا اظہار کرتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ کارروائیاں بین الاقوامی انسانی قانون کی صریح خلاف ورزی ہیں۔منیر اکرم نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ اقوام متحدہ کے اہلکاروں کے تحفظ کو یقینی بنائے اور اس طرح کے اقدامات کے ذمہ داروں کا احتساب کرے۔ انہوں نے اقوام متحدہ کے زیر حراست تمام اہلکاروں کی فوری اور غیر مشروط رہائی کا بھی مطالبہ کیا۔یمن کے شدید انسانی بحران کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہاں کے شہریوں کو شدید غذائی عدم تحفظ کا سامنا ہے، موسمیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات سے پیدا ہونے والی آفات بشمول سیلاب اور خشک سالی سے تقریبا45 لاکھ افراد بے گھر ہوچکے ہیں۔ پاکستانی مندوب نے اس بات پر زور دیا کہ یمن کے بحران سے نمٹنے کے لئے مربوط اور مضبوط بین الاقوامی ردعمل کی ضرورت ہے اور دیگر ممالک یمن کے 2025 کے انسانی امدادی ردعمل کے منصوبے میں اپنا حصہ ڈالیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان نے تجارتی بحری جہازوں پر حوثیوں کے حملوں کی بھی مذمت کی ہے لیکن اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ ماہ جہاز رانی پر حملوں کا کوئی نیا واقعہ ریکارڈ نہیں کیا گیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ پیشرفت غزہ میں جنگ بندی کا نتیجہ ہے۔
اس لیے یہ یقینی بنانا ضروری ہے کہ غزہ میں جنگ بندی جاری رہے اور جنگ بندی کے معاہدے کے تینوں مراحل پر عمل درآمد ہو تاکہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں کے ساتھ ساتھ یمن سمیت وسیع تر خطے میں امن قائم ہو۔انہوں نے امن، استحکام اور خوشحالی کے لئے یمن کے عوام کے ساتھ پاکستان کی یکجہتی کا اظہار کیا۔قبل ازیں یمن کے لئے اقوام متحدہ کے ایلچی گر نڈبرگ نے 15 رکنی کونسل کو بریفنگ میں بتایا کہ ملک میں پائیدار امن اب بھی ممکن ہے لیکن اس کے لئے ہر طرف سے عزم، ہمت اور عمل کی ضرورت ہے۔انہوں نے یمن میں تازہ ترین سیاسی پیش رفت بارے بھی آگاہ کیا جہاں حوثی باغی اور حکومتی فورسز (جنہیں سعودی قیادت میں اتحاد کی حمایت حاصل ہے) دہائی سے زائد عرصے سے اقتدار کے لئے لڑ رہے ہیں۔گرنڈ برگ نے خطے میں رونما ہونے والے حالیہ واقعات پر روشنی ڈالی۔انہوں نے کہا کہ غزہ میں جنگ بندی کے ساتھ مشرق وسطی میں صورتحال میں بہتری آئی ہے، بحیرہ احمر میں بحری جہازوں اور اسرائیل میں اہداف پر انصار اللہ کے حملے رک چکے اور کشیدگی میں میں یہ عارضی کمی اور بحری جہاز گلیکسی لیڈر کے عملے کی رہائی ایک خوش آئند ہے۔ انہوں نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ بقیہ چیلنجوں کی شدت کو تسلیم کرتے ہوئے کشیدگی میں مزید کمی کے لئے اس موقع کو استعمال کرے۔اس موقع پر اقوام متحدہ کے ایمرجنسی ریلیف کوآرڈینیٹر ٹام فلیچر نے یمن کی صورتحال کو خطرناک قرار دیتے ہوئے وہاں انسانی صورتحال اور امدادی کارکنوں کو تحفظ فراہم کرنے کی ضرورت پر اپ ڈیٹ کیا۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی