ایگزیکٹو ڈائریکٹر پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی کے سربراہ اور COP29 کی بین الاقوامی مشاورتی کمیٹی کے رکن ڈاکٹر عابد قیوم سلہری نے عالمی رہنماو¿ں پر زور دیا ہے کہ وہ ”مستقبل کے معاہدے“ کو ترقی پذیر ممالک کیلئے قابلِ رسائی بنانے کیلئے مالی وسائل فراہم کریں۔ ۔ ڈاکٹر سلہری اس وقت نیویارک میں اقوام متحدہ کے ”مستقبل کے سربراہی اجلاس“ میں شریک ہیں۔نیزامی گنجاوی انٹرنیشنل سینٹر کی جانب سے COP29 کے صدر کے مشورے پر "عالمی اعتماد اور حکمرانی، موسمیاتی اقدام: اقوام متحدہ کے مستقبل کے سربراہی اجلاس اور COP29 کا ربط" کے عنوان سے منعقدہ ایک ضمنی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر عابد نے کہا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو ویٹو کے اختیار کا استعمال کرتے وقت انسانی سلامتی کو اولین ترجیح دینی چاہئے۔ انہوں نے عالمی حکمرانی اور مالیاتی اداروں میں اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا تاکہ موسمیاتی تبدیلیوں جیسے مشترکہ عالمی مسائل سے نمٹنے کے لیے بہتر اور منصفانہ اقدامات کئے جا سکیں۔
انہوں نے کہا کہ رکن ممالک کی حکومتوں کے درمیان اعتماد کی کمی عالمی حکمرانی کو متاثر کر رہی ہے، جس کا تدارک ’مستقبل کے معاہدے‘ کے تحت مشترکہ تعاون کے ذریعے کیا جا سکتا ہے۔ COP29 کے صدر اور جمہوریہ آذربائیجان کے وزیر ماحولیات و قدرتی وسائل مختار بابایف نے COP29 کی بین الاقوامی کمیٹی کے اراکین کو دعوت دی کہ وہ اقوام متحدہ کے مستقبل کے سربراہی اجلاس کے ساتھ COP29 کے تعلقات پر غور کریں۔ڈاکٹر سلہری نے کہا کہ معاہدے کو اپنانا اس بات کا ثبوت ہے کہ عالمی رہنما ایک ایسے نظام کیلئے پرعزم ہیں جس میں اقوام متحدہ کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ یہ معاہدہ نہ صرف موسمیاتی تبدیلیوں کے شکار ممالک کیلئے مالی معاونت اور ٹیکنالوجی کی منتقلی کے عمل کو تیز کرنے میں معاون ہوگا بلکہ جنوبی ممالک کو موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کی صلاحیت بھی فراہم کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ معاہدے میں عالمی درجہ حرارت کو صنعتی دور سے پہلے کی سطح سے 1.5 ڈگری سیلسیئس تک محدود کرنے اور 2050 تک خالص صفر اخراج حاصل کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ اگر یہ عہد COP29 کے اعلامیے میں بھی شامل کیا گیا تو یہ عالمی موسمیاتی اقدامات کیلئے ایک اہم پیش رفت ہوگی۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی