قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے کہا کہ پیغمبر گرامی ۖ کے عزیز چچا اور امیر المومنین حضرت علی کے والد گرامی نے دین حق کی ترویج و اشاعت کی خاطر جس طرح حضور اکرم ۖ کے دفاع اور تحفظ کے لئے اپنی زندگی وقف کررکھی تھی اور بنو ہاشم کے ایک ذمہ دار ترین فرد کی حیثیت سے خانہ کعبہ کے کلید بردار کی ذمہ داریاں ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اعلان رسالت سے لے کر شعب ابی طالب تک کے مراحل میں ختمی مرتبت ' خاتم المرسلین ۖ کی سرپرستی کا عظیم فریضہ انجام دیا وہ اپنی مثال آپ ہے چنانچہ ام المومنین حضرت خدیجہ الکبری اور جناب ابو طالب کی رحلت کے سال کو نبی رحمت ۖ نے ''عام الحزن '' قراردیا اور اپنی دوعزیز ترین محسن و مربی ہستیوں کے غم و دکھ کا اظہار کیا۔علامہ ساجد نقوی نے یہ بات 26 ربیع الاول حضرت ابو طالب کے یوم وفات پر اپنے پیغام میں کہی ۔انہوں نے مزید کہا کہ بعثت رسول اعظم ۖ سے قبل انسانیت جس ابتری اور زوال کا شکار تھی انسانی معاشرہ جس خلفشار میں مبتلا تھا قدم قدم پر مفاسد نے ڈیرے ڈال رکھے تھے
نفرتوں اور جنگوں نے انسانی جانوں کو بے وقعت کیا ہوا تھا تکریم انسانیت اور حقوق نسواںپامال کیے جارہے تھے ہر شخص نے اپنی پسند اور خواہش پر خدا تراشے ہوئے تھے اخلاقیات اور صبر و برداشت کا نام و نشان نہیں مل رہا تھا خالق کے ساتھ مخلوق کا رشتہ قائم ہونا تو دور کی بات مخلوق کو حقیقی خالق کا حقیقی تعارف ہی یاد نہیں رہا تھا۔ ایسے ماحول اور اس زمانے میں حضور اکرم ۖ کا مبعوث ہونا عالم ِ انسانیت کے لیے ایک عظیم خوشخبری اور دائمی نجات کی نوید ثابت ہوا اور دعوت حق کی راہ میں رکاوٹوں اور مشکلات کو دور کرنے کے لئے خاتم النبین ۖ کے چچا محترم حضرت ابو طالب نے آگے بڑھ کر نبوت و رسالت کا ساتھ دیا اور رکاوٹیں دور کرنے کیلئے جدوجہد کی۔قائد ملت جعفریہ پاکستان نے یہ بات زور دے کر کہی کہ پیغمبر اکرم ۖ کی حیات طیبہ کے دوران حضرت ابو طالب اور انکی رحلت کے بعد اولاد حضرت ابو طالب نے دین اسلام کی ترویج و اشاعت کی خاطر جان و مال کی قربانیاں پیش کرکے رہتی دنیا تک کی انسانیت تک پیغام ہدایت پہنچایا اور عالم اسلام و عالم انسانیت کی رہبری و رہنمائی کے انمٹ نقوش چھوڑے جن پر عمل پیرا ہوکر ہر دور کی انسانیت اپنی نجات کا سامان فراہم کرسکتی ہے۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی