کسان اتحاد کے سربراہ خالد حسین باٹھ نے دعوی کیا ہے کہ گندم کی خریداری میں سپورٹ پرائس ختم ہونے پر کسانوں کا 900 ارب روپے نقصان ہوا ہے جبکہ کسانوں نے حکومت پنجاب کے 15 ارب روپے کا ریلیف پیکیج بھی مسترد کردیا ہے۔خالد حسین باٹھ نے ایک ٹی وی انٹرویو میں سپورٹ پرائس ختم ہونے پر گندم کی قیمت میں 1700 روپے اضافے پر کہا کہ 2022 میں یوریا کھاد 1600 روپے کی مل رہی تھی اور ڈی اے پی کھاد 8000 روپے کی تھی۔ حکومت نے یوریا سیدھا 4500 روپے کی کردی جبکہ ڈی اے پی 12000 روپے کردی۔ جبکہ بجلی 15 روپے سے 60 روپے فی یونٹ چلی گئی۔ ڈیزل کا ریٹ بھی 30 سے 40 فیصد بڑھ گیا۔انہوں نے کہا کہ حکومت کہتی ہے آئی ایم ایف کا دبا ئوہے، لیکن یہ اپنے لوگوں کو بچا لیتے ہیں
شوگر مالکان ہم سے گنا 3502 کے ریٹ پر خریدتے رہے، پھر 38 کا لیا اور آخر میں حکومت کو دکھانے کیلئے دس دس ٹرالیاں 450 سے 500 کے ریٹ میں خرید لیں۔انہوں نے دعوی کیا کہ شوگر مالکان نے چینی بیچی 165 روپے فی کلو، اور انہیں سہولت دینے کیلئے حکومت فورا ایکشن میں آئی اور نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے شوگر مل مالکان سے ملاقات کی اور ہمیں بلایا تک نہیں۔ حکومت نے چینی کا ریٹ 165 روپے کردیا جو 115 روپے میں بھی مل سکتی تھی۔کالد حسین باٹھ نے کہا کہ بہاولپور میں گندم کی کاشت پر خرچہ 4 ہزار سے 4200 روپے فی من ہے جبکہ حکومت پنجاب نے 3900 روپے کا اعلان کرکے بھی نہیں خریدی اور اب ہم گندم 2 ہزار روپے میں بیچنے پر مجبور ہیں، جو کہ 2200 روپے کا نقصان ہے۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی