گیس کی قیمتوں میں اضافے اور سپلائی منقطع کرکے صنعتی کیپٹو پاور پلانٹس (سی پی پیز) کو نیشنل پاور گرڈ پر منتقل کرنے کے آئی ایم ایف کے دبائو کے بعد گیس کمپنیوں نے نجی حریفوں کے ہاتھوں پرانے گاہکوں کو کھونے پر شور مچانا شروع کردیا اور حکومت سے غیر منصافانہ پالیسی پر نظر ثانی کا مطالبہ کیا ہے۔میڈیا رپورٹ کے مطابق ایک سرکاری ادارے نے حکومت سے کلیئرنس طلب کرتے ہوئے موقف اپنایا ہے کہ اگر سوئی ناردرن گیس پائپ لائنز لمیٹڈ (ایس این جی پی ایل) اور سوئی سدرن گیس کمپنی لمیٹڈ (ایس ایس جی سی ایل) طلب کو پورا کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو سی پی پیز کو فراہمی کے لیے اسے ایل این جی درآمد کرنے کی اجازت دی جائے۔ذرائع نے بتایا کہ پاکستان ایل این جی لمیٹڈ (پی ایل ایل) نے گزشتہ ہفتے خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل(ایس آئی ایف سی)کو تجویز پیش کی تھی کہ اسے ایل این جی کارگو درآمد کرنے اور صنعتی شعبے کو فراہم کرنے کی اجازت دی جائے کیونکہ ایس این جی پی ایل اور ایس ایس جی سی ایل کو صارفین کی کمی کا سامنا ہے اور وہ کنٹریکٹ شدہ کارگو کی منسوخی چاہتے ہیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ لاہور سے تعلق رکھنے والی ایس این جی پی ایل نے پی ایل ایل کی تجویز اور اپنے گاہکوں کو نجی شپرز پر منتقل کرنے کی مخالفت کی ہے۔رپورٹ کے مطابق ایک ذریعے نے سوال کیا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ آئی ایم ایف کی شرط کا اطلاق ایک موجودہ گیس سپلائر پر ہو اور اسی وزارت توانائی یا نجی پارٹی کے تحت کسی دوسری کمپنی پر نہ ہو؟انہوں نے دلیل دی کہ آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) کی جانب سے ریگولیٹ نہ کی جانے والی قیمت پر گیس کی فراہمی مزید سی پی پیز کو پاور گرڈ سے دور رہنے کی ترغیب دے سکتی ہے۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی