آڈیو لیکس کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کی جانب سے چیمبر میں سماعت کی استدعا مسترد کردی،جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیئے کہ فون ٹیپنگ کا کوئی قانون موجود نہیں، جو ہو رہا ہے وہ غیر قانونی ہے۔ منگل کو بشری بی بی اور نجم الثاقب کی آڈیو لیکس کے خلاف درخواستوں پر سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس بابر ستار نے کی، جس میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل نے عدالت کوبتایا کہ وزارتِ داخلہ نے ایک ایس او پی جاری کیا، آئی ایس آئی اور آئی بی براہ راست سروس پرووائیڈرز سے ڈیٹا لے سکتی ہیں۔ دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے ضرورت پڑنے پر ان ایجنسیز سے ڈیٹا لے سکتے ہیں۔ جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیے کہ یہ ایس او پی تو ایک سیکشن افسر نے جاری کیا ہے، متعلقہ اتھارٹی کا ذکر نہیں۔ وزارتِ داخلہ کے پاس یہ اختیار کیسے ہے، کس قانون کے تحت یہ ایس او پی جاری کیا گیا؟ وارنٹ کے بغیر لائیو لوکیشن کیسے شیئر کی جا سکتی ہے؟ حکومت نے کس قانون کے تحت فیصلہ کیا کہ یہ ڈیٹا حاصل کر سکتے ہیں؟ وزارتِ داخلہ کے ایک سیکشن افسر نے ایس او پی جاری کر دیا، سیکشن افسر کے ایس او پی کے تحت آپ ڈیٹا حاصل کرتے ہیں، آپ نے فون ٹیپنگ سے متعلق نہیں بتایا جو چیزیں بتائی ہیں یہ ان میں نہیں آتا، ابھی اس دستاویز کی قانونی حیثیت بھی دیکھنی ہے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے مزید بتایا کہ لاپتا فرد کے کیس میں سندھ ہائیکورٹ نے ڈیٹا خفیہ اداروں کو دینے کی ہدایت کی تھی، جس پر عدالت نے استفسار کیا کہ کیا سندھ ہائیکورٹ کا فیصلہ ایک کیس کی حد تک تھا یا مستقل ؟ عدالت نے ایڈیشنل جنرل کو ہدایت کی کہ آپ نے 2013 میں کیا پالیسی بنائی وہ پڑھیں ۔ کیا اس پالیسی کے میکنزم کے مطابق آپ ڈیٹا لیتے رہے ہیں ؟، جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ جی ایسا ہی ہے۔
دورانِ سماعت عدالت نے استفسار کیا کہ پی ٹی اے کس بنیاد پر ڈائریکشن پاس کر رہا ہے ؟، جس پر پی ٹی اے کے وکیل نے جواب دیا کہ سندھ ہائیکورٹ کے سامنے ایک معاملہ ہے تو پی ٹی اے سمیت تمام فریقین کو بلا کر میکنزم بنوایا گیا ۔ وہ فیصلہ چیلنج نہیں ہوا اور 2013 کی پالیسی بنی ۔ عدالت نے ہدایت کی کہ اس فیصلے میں اِس طرح نہیں، آپ وہ پڑھیں ۔ عدالت نے استفسار کیا کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ پی ٹی اے نے کسی کو فون ٹیپنگ کی اجازت نہیں دی ؟ جس پر وکیل نے بتایا کہ جی ہم نے کسی کو فون ٹیپنگ کی اجازت نہیں دی۔ پی ٹی اے سرویلینس نہیں کررہی۔ پی ٹی اے ریگولیٹر ہے۔ مصطفی ایپکس کے بعد کوئی بھی ڈویژن ہمیں لکھتا ہے تو ہم یہی سمجھتے ہیں وفاقی حکومت کا فیصلہ ہے۔ اسلام آباد پولیس کے وکیل نے عدالت میں بتایا کہ ہماری سمجھ کے مطابق یہ میٹریل لینے پر پابندی نہیں، جس پر جسٹس بابر ستار نے پوچھا کہ کیا آپ بغیر وارنٹ کسی کے گھر جا سکتے ہیں ؟ ، وکیل نے جواب دیا کہ نا ہم سرویلینس کرتے ہیں نہ ہی کا ریکارڈ کرتے ہیں بلکہ وقوعہ ہونے کے بعد میٹریل لیتے ہیں۔ عدالت نے سوال کیا کہ 11 سال میں آپ نے کبھی وارنٹ لیے، جس پر وکیل نے بتایا کہ وقوعہ ہونے کے بعد میٹریل لینے کے لیے ہماری سمجھ کے مطابق وارنٹ لینا ضروری نہیں ۔ عدالت نے استفسار کیا کہ گھر میں بیٹھے کوئی پرائیویٹ ویڈیو ہو گی تو کیسے آپ لے سکتے ہیں ؟ ، جس پر وکیل نے کہا کہ ہم سرویلینس نہیں کرتے ہم وقوعہ کے بعد ثبوت اکٹھے کرنے کے لیے میٹریل لے سکتے ہیں ۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ کیا اسلام آباد پولیس کو آج تک سمجھ نہیں آیا کہ وارنٹ لینے کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟کیا 11 سال میں وارنٹ لینے کی آپ کو ضرورت پیش نہیں آئی ؟ عدالت نے پوچھا کہ کس نے آئی جی کو کہا ہے کہ وارنٹس نہ لیں۔ کیا بے وقوف تھی پارلیمنٹ جس نے یہ قانون بنا دیا ؟ آپ نے 11 سال میں ایک دفعہ بھی عمل نہیں کیا ۔ ایک قانون ہے 11 سال میں ایک دفعہ بھی کسی نے ڈیٹا لینے کے لیے وارنٹ نہیں لیے ۔ جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیے کہ آپ نے قانون بنایا ہوا ہے تو سب کو کچھ پتا ہو گا ۔
لوگوں کو پتا ہونا چاہیے کہ آپ لوگوں کی پرائیویسی میں کیسے گھس رہے ہیں ۔ یہاں عدالتوں کو نہیں پتا آپ کیا کر رہے ہیں ۔ یہ نیشنل سکیورٹی نہیں ہے، آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ قانون بنا ہوا ہے یا نہیں ۔ اس موقع پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت میں کہا کہ چیمبر سماعت رکھ لیں، آپ کو آگاہ کر دیں گے، جس پر جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیے کہ کیا میں آپ سے دہشت گردوں سے متعلق پوچھ رہا ہوں ؟ صرف قانون کا پوچھا ہے ۔ کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں ججز کے چیمبر یا وزیراعظم ہاس کی ٹیپنگ Hostile agencies کرتی ہیں ؟۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ نہیں ایسا نہیں ہے۔ جسٹس بابر ستار نے کہا کہ یہ نیشنل سکیورٹی کا معاملہ نہیں، آپ کی چیمبر سماعت کی درخواست مسترد کرتا ہوں۔ اس موقع پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بار بار چیمبر سماعت کی استدعا کی، جس پر جسٹس بابر ستار نے کہا کہ میں نیشنل سکیورٹی کے سیکریٹ آپ سے نہیں پوچھ رہا ۔ چیمبر سماعت کا مذاق شروع نہیں کریں گے۔ سماعت کے دوران وفاقی حکومت کی جانب سے ٹیلی کام آپریٹرز پر ڈیٹا دینے پر پابندی ختم کرنے کی استدعا کردی گئی۔ جسٹس بابر ستار نے استفسار کیا کہ ٹیلی کام اور ٹیلی گراف ایکٹ کے تحت رولز بنے ہیں یا نہیں؟ جج سے وارنٹ لینا نیشنل سکیورٹی کے لیے خطرہ کیسے ہو گیا؟ پاکستان واحد ملک نہیں ہے جو دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے۔ نائن الیون کے بعد دنیا کے کئی ممالک میں یہ صورتحال بنی۔ امریکا سمیت بہت سے ممالک نے قوانین بنائے، اسٹریٹجی بنائی۔ یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں۔ آپ دہشت گردی کی وجہ سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ کچھ پوچھا ہی نہ جائے۔ جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیے کہ آپ سے یہ نہیں پوچھ رہا کہ کون دہشت گرد ہیں، ان کے نام کیا ہیں۔ کیا اِن کیسز میں دشمن ایجنسی کا کردار موجود ہے؟ خدا کا خوف کریں یہ سوال ایک سال سے پوچھ رہا ہوں، جائیں سپریم کورٹ سے میرے فیصلے کالعدم کرائیں ورنہ یہاں جواب دینا ہو گا۔ یہاں رپورٹس میں کئی مقف بدلے گئے، عدالت جعل سازی کی کارروائی کر سکتی تھی۔
کیا یہ وفاقی حکومت کا کنڈکٹ ہے؟ یا تو یہ کہہ دیں کہ آپ قانون سے بالاتر ہیں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل نے جواب دیا کہ کوئی قانون سے بالاتر نہیں۔ ٹیلی کام کمپنی کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ڈیٹا فراہمی ٹیلی کام آپریٹرز کے لائسنس کے حصول کے لیے پی ٹی اے کی شرط ہے، جس پر جسٹس بابر ستار نے استفسار کیا کہ جو ڈیٹا لیا جا رہا ہوتا ہے اس متعلق آپ کو معلوم ہوتا ہے؟، جس پر وکیل نے بتایا کہ نہیں، ٹیلی کام آپریٹرز کو اس متعلق کچھ پتا نہیں ہوتا۔ ٹیلی کام آپریٹرز پی ٹی اے کے کہنے پر یہ سسٹم لگاتے ہیں؟ ۔ جسٹس بابرعدالت نے ریمارکس دیے کہ آپ نے پی ٹی اے کی سسٹم لگانے کی ڈائریکشن کی خط و کتابت ریکارڈ پر لانی ہے، جسپر وکیل نے کہا کہ یہ لائسنس کی شرط ہے، پھر بھی کوئی خط و کتابت ہے تو ریکارڈ پر لے آتے ہیں۔ عدالت نے کہا کہ یہ کام زبانی نہیں ہوتا، بڑی تفصیلی ڈائریکشن ہوتی ہے۔ ٹیلی کام کمپنی کے وکیل نے بتایا کہ مجاز ایجنسیز ٹیلی کام کمپنی کے تمام صارفین کا 2 فیصد ڈیٹا بیک وقت حاصل کر سکتی ہیں۔ جسٹس بابر ستار نے پوچھا کہ پورے ملک کے ٹیلی کام آپریٹرز کے صارفین کا 2 فیصد ڈیٹا حاصل کیا جا رہا ہے؟ آپ خرچ اٹھاتے ہیں، سسٹم لگا کر دیتے ہیں تو آپ کیسے ذمے دار نہیں؟ کسی کو فون ٹیپنگ کی اجازت دینے کا کوئی قانون موجود نہیں ہے۔ کوئی میکنزم فراہم نہیں کیا گیا تو جو کچھ ہو رہا ہے وہ غیرقانونی ہے۔ ٹیلی کام کمپنیاں بغیر کسی اسکروٹنی کے شہریوں کا ڈیٹا دے رہی ہیں تو وہ برابر کی ذمے دار ہیں۔ پی ٹی اے کے چیئرمین اور بورڈ ممبرز کو توہینِ عدالت کا شوکاز نوٹس جاری کروں گا۔ پی ٹی اے نے عدالت کو کہا کہ انہوں نے فون ٹیپنگ کی کسی کو اجازت ہی نہیں دی۔ پی ٹی اے کے کہنے پر ہی ٹیلی کام آپریٹرز نے پورا سسٹم لگا کر دیا ہوا ہے۔ دوران سماعت اسلام آباد پولیس کے وکیل طاہر کاظم عدالت میں پیش ہوئے اور استدعا کی کہ ہمیں تفتیش کی حد تک سی ڈی آر فراہمی کی اجازت دی جائے، جس پر جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیے کہ اس حوالے سے میں مناسب آرڈر کردں گا۔ بعد ازاں عدالت نے آڈیو لیکس کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کردی۔ عدالت نے کہا کہ آئندہ سماعت کی تاریخ تحریری حکم نامے میں جاری ہوگی۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی