ڈاکٹر فاروق ستار نے ایم کیو ایم میں اپنی واپسی کا عندیہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ میری سیاسی بصیرت کہہ رہی ہے کہ میری ایم کیو ایم میں واپسی کے امکانات پہلے سے زیادہ روشن ہوگئے ہیں، تحریک انصاف کو چھوڑ کر ایم کیو ایم نے پیپلز پارٹی اور زرداری سے معاہدہ کیا جسے لوگوں نے پسند نہیں کیا اور اس معاہدے سے ووٹ بینک متاثر ہوا، وزارتیں، اقتدار میں آنا اور گورنر شپ یہ ہمارے اہداف نہیں ہونے چائییں،منگل کو نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں نے خود کو ایم کیو ایم سے کھبی الگ نہیں سمجھا، اس وقت ایم کیو ایم کے ٹائی ٹینک کو بچانے کی ضرورت ہے، اب وہ موقع آگیا ہے اور کارکنوں تک پیغام چلا گیا ہے کہ اب رابطہ کمیٹی کے پاس کوئی جواز نہیں بچتا کہ مجھے اور ایم کیو ایم کو ایک دوسرے سے دور رکھا جائے،فاروق ستار نے کہا کہ ایم کیو ایم میں واپسی کیلیے میری نہ کوئی شرط ہے اور نہ ہی کنونئیر شپ کا جھگڑا، میں خالد مقبول کے ساتھ بیٹھنے کو تیار ہوں جیسے این اے 245کے الیکشن کے موقع پر تین بار بیٹھے، یہ وہ وقت ہے کہ جب مجھے اور خالد مقبول کو مل کر ایک مضبوط بیانیہ بنانا ہوگا،فاروق ستار نے کہا کہ انٹرا پارٹی الیکشن، نئے چہروں کو آگے لانا اور اپنی غلطیوں پر قوم سے معافی مانگنا ہوگی،
مجھے نہیں معلوم کہ اس حوالے سے بزرگ کیا کہے رہے ہیں، فیصلہ خالد مقبول اور رابطہ کمیٹی کو کرنا ہے کہ کیا وہ میرے بیانیے سے متفق ہیں، انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف کو چھوڑ کر ایم کیو ایم نے پیپلز پارٹی اور زرداری سے معاہدہ کیا جسے لوگوں نے پسند نہیں کیا اور اس معاہدے سے ووٹ بینک متاثر ہوا، وزارتیں، اقتدار میں آنا اور گورنر شپ یہ ہمارے اہداف نہیں ہونا چاہیئیں، اگلے انتخابات میں جانے سے پہلے پیپلز پارٹی سے ہونے والے اتحاد کے حوالے سے اہم فیصلے کرنے ہوں گے،فارو ق ستار کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی مذاکرات پر مذاکرات اور تاریخ پر تاریخ دے رہی ہے، اسی وجہ سے بلدیاتی انتخابات بھی التوا کا شکار ہو رہے ہیں، اب پی پی کو حلقہ بندیوں اور بلدیاتی ایکٹ میں ترمیم کے حوالے سے ڈیڈ لائن دینا ہوگی اگر پیپلز پارٹی دی جانے والی ڈیڈ لائن میں حلقہ بندیوں اور بلدیاتی ترمیم کا مسئلہ حل کرے تو ٹھیک ورنہ الیکشن سے بہت پہلے پیپلز پارٹی سے کیے معاہدے اور بوجھ سے الگ ہوجانا چاہیے اور ایم کیوا یم، جماعت اسلامی اور تحریک انصاف مل کر توہین عدالت کا مقدمہ عدالت میں لے کر جائیں،سابق وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ آصف علی زرداری وہ پیر ہے جس نے جماعت اسلامی، پی ایس پی اور ایم کیو ایم تینوں کا منہ بند کر رکھا ہے،
جماعت اسلامی نے 25دن اور پی ایس پی نے 7روز کا دھرنا دیا لیکن زرداری نے انھیں لالی پاپ دے کر خاموش کرا دیا اور اسی طرح ایم کیو ایم سے بھی معاہدہ کرکے انکا منہ بند کرادیا،انہوں نے کہا کہ حالات کا تقاضہ ہے ایم کیو ایم کے دھڑوں کو ملنا ہوگا اور ایک مضبوط بیانیہ بنا کر ایم کیو ایم کو نئی شکل میں لانا ہوگا کیونکہ ہم سب کے ملنے سے مایوسی ختم لوگوں اور ووٹ بینک اکٹھا ہوگا، ہمیشہ کہا ہے کہ مصطفی کمال اور انیس قائم خانی کے لیے ایم کیو ایم کے دروازے کھلے ہونا چاہئیں، پی ایس پی کے دوستوں کو کہوں گا ایک ہی نشان اور پارٹی میں جمع ہوں تو اچھا ہے، پی ایس پی سمیت سب اسی پراڈکٹ کی پیداوار ہیں ، سیاسی غلطیاں ، فیصلے ہوگئے اب آگے بڑھیں،فاروق ستار نے کہا کہ اگلے عام انتخابات میں متحدہ کو ازسر نو منظم کرنے کی ضرورت ہے، سابق گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد تجربہ کار ہیں، وہ جب ملک واپس آجائیں گے تو صورتحال واضح ہوجائے گی،
انکی وطن واپسی میں جو رکاوٹیں ہیں وہ انھیں معلوم ہیں اور وہی اسے دور کرسکتے ہیں،انہوں نے کہا کہ کامران ٹیسوری جب پارٹی میں واپس آئے اور گورنر بنے تو مجھے کسی چیز کا علم نہیں تھا، انہیں پارٹی نے موقع دیا اب دیکھنا ہے کہ وہ پارٹی کیلئے کیا کرتے ہیں، امید ہے وہ مسنگ پرسن، دفاتر اور کے فور منصوبے کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے، ایم کیو ایم کا ہدف 65کروڑ گیلن اضافی پانی، سرکلر ٹرین، نکاسی آب اور کچرا اٹھانے کا جدید نظام کوٹہ سسٹم، مردم شماری اور پبلک ٹرانسپورٹ ہونا چاہیے، فاروق ستار نے کہا کہ میں سیاسی آدمی ہوں میں کسی کو غدار یا محب وطن ہونے کے سرٹیفکیٹ نہیں بانٹ سکتا، اگر یہ فیصلے کسی کے ہاتھ میں ہیں تو سیاسی ضرورتوں کے مطابق یہ بدلتے رہتے ہیں، آج غدار تو کل حب الوطنی کے سرٹیفکیٹ دیے جاتے رہیں گے، میرا ماننا ہے کہ غداری کے معاملات ہوں یا کسی کو معافی دینے کے یہ فیصلہ ملک کی عدالتوں نے کرنا ہے، اس سلسلے میں عدالتی کمیشن بنا دیا جائے جو تیزی سے اس معاملے پر فیصلے کرے۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی