کشمیر ۔ شاندار تاریخی پس منظر و روایات کا ایک دلکش امتزاج اور حسین خطۂِ ارضی ہے۔کشمیر، 1947 کی آزادئِ برصغیر ہند و پاک میں اپنا حصہ پانے اور ریاستی خودمختاری سے محروم رہا۔ آزاد کشمیر حکومت کے پہلے صدر، سردار محمد ابراہیم خان مرحوم جس کا تفصیلی جائزہ اپنی تصنیف میں لے چکے ہیں۔
کشمیر بحیثیت ایک مملکت
اس باب میں اُنہوں نے جموں و کشمیر کو ایک آزاد اور خودمختار مُلک کے تناظر میں، مؤثر اور دلچسپ پیرایہ میں پیش کیا ہے۔
“حیدرآباد کا کشمیر کے ساتھ تبادلہ ممکن تھا مگر ایک شخص کی ہٹ دھرمی کے باعث پاکستان نے یہ سُنہرا موقع کھو دیا۔ ستمبر 1948 میں قائدِ اعظم کے سانحۂِ ارتحال کا موقع پرست بھارت نے بھرپور فائدہ اُٹھایا اور حیدرآباد کو فوج کشی کرکے ہتھیالیا کہ یہ وقت پاکستان پر بھاری تھا۔
“کشمیر، بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک ایسا تنازعہ بن گیا جس کا حل دونوں ممالک کے درمیان 48-1947 اور 1965 کی جنگوں کے باوجود ممکن نہ ہوا۔ بھارت مسئلہِ کشمیر کو سیکیوریٹی کونسل میں لے گیا جہاں پاکستان نے اپنے مؤقف کا بھرپور دفاع کیا مگر کشمیر میں استصوابِ رائے کی صبح طلوع نہ ہو پائی۔ “بھارت اور پاکستان دونوں، کنڑول لائن کے ادھر اور اُدھر، کشمیری عوام کے دل جیتنے میں ناکام رہے جبکہ مقبوضہ کشمیر میں مزاحمت اور کشمکش جاری اب تک جاری ہے۔
“بھارتی بری اور فضائی کے چھ سات ڈویژن کا قبضہ اور غلبہ جاری ہے۔ مقامی آبادی محصور اور اُن کے رہنماء پسِ زنداں۔ وادئِ کشمیر کے عظیم قائد،شیخ عبداللّہ دس سال تک قید و بند کی سختیاں جھیلتے رہے۔
“اہلِ وادی کی مسلم اکثریت کا پاکستان کے ساتھ جذباتی اور والہانہ لگاؤ، بھارت کی کامیابی میں بنیادی رکاوٹ ہے چاہے وہ اقتصادی ترقی کے نام پر کچھ بھی کرلے۔ یہ رجحان تبدیل ہوتا نظر نہیں آتا اور وہ دن بھی دور نہیں کہ جب بھارت سکھوں کو اُن کا علاقہ دینے پر مجبور ہوگا۔ پھر کشمیر بھی بھارتی چُنگل سے نجات پاکر رہے گا۔
“پاکستان کے شمالی علاقہ میں گلگت اور لداخ جہاں ہمیشہ شخصی تسلط رہا، کے لوگوں کو چین اور پاکستان کو ملانے والی پانچ سو میل طویل شاہراہ کی وجہ سے ایک تاریخی اہمیت حاصل ہوئی ہے۔ اب یہ علاقہ ایک اہم فوجی اہمیت کا حامل ہے۔
“آزاد کشمیر میں ایک کونسل اور منتخب اسمبلی کی حکومت ہے جو وزارت کشمیر اَفیرز کے تحت ہے اور برسہا برس گذرنے کے باوجود عدم استحکام کا شکار ہے۔ مقامی قیادت ابھی تک آزاد کشمیر کو مکمل خودمختار بنانے کی اہلیت سے عاری ہے اگرچہ کچھ مساعی سے وہاں ایک سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ قائم ہوچکی ہیں۔
“آزاد کشمیر کا اپنا ایک جاذبِ نظر پرچم ہے اور وہ تمام عناصر بھی بدرجہ اُتم موجود ہیں جو ایک مُلک کے لیۓ لازمی ہیں۔ اس کی آبادی بشمول مقیم مہاجرین تین سے چار ملین ہے جبکہ پوری ریاست کی مجموعی آبادی دس ملین یعنی ایک کروڑ تک پہنچ چکی ہے۔
“جموں و کشمیر کا رقبہ۔ میسور، تراوینکور،جسلمیر اور بیکانیر کے مجموعی رقبہ کے برابر ہے۔ اس کا 84 ہزار مربع میل رقبہ، پانچ یورپی ممالک کے برابر ہے جو اقوامِ متحدہ کے رُکن ہیں۔ اسی طرح جُبوتی (شمالی افریقہ) جس کی آبادی 1/3 ملین ہے، بھی ایسا ہی ایک مُلک ہے۔ کشمیر اس لحاظ سے، بلوچستان کو نکال کر، پاکستان کے برابر ہے”۔
(جاری ہے)
سردار محمد ابراہیم خان
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی