i پاکستان

دی کشمیر ساگاتازترین

April 16, 2023

دی کشمیر ساگا
پاکستان نے بے شمار غلطیاں کیں جنہیں یہ ہیچ مداں روکنے پر قادر تھا اور نہ ہی صاحبانِ اقتدار کی روش تبدیل کرنے پر۔ البتہ یہاں اُن دو فاش غلطیوں کا خصوصی طور پر ذکر کرنا ضروری ہے جن سے میں ذاتی طور پر آگاہ ہوں۔
پہلے واقعہ کا تعلق جنرل اکبر خان سے ہےجس میں وہ شریک تھے اور جس کا ذکر اُنہیں اپنی تصنیف (Raiders in Kashmir) میں کرنا چاہیۓ تھا مگر اُنہوں نے بالکل نہیں کیا۔
ہمیں کشمیر میں آزادی کی اپنی منظم اور مربوط مہم کے دوران اچانک کشمیر ایئرپورٹ کی فوجی اہمیت کا احساس ہوا جو سرینگر کا واحد علاقہ تھا جہاں بھارت بذریعہ فضا اپنی فوج اُتار سکتا تھا۔
پٹھان کوٹ میں فوج ُتاری جاسکتی تھی مگر وہاں سے زمینی راستہ موجود نہ تھا سوائے سرینگر کے اور پھر ایسا ہی ہوا۔ بھارت نے اس فضائی سہولت کا بھرپور فائدہ اُٹھاتے ہوئے 1947 میں برتری حاصل کرلی جو بعد میں بھی جاری رہی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس مقصد کے لیۓ خصوصی طور پر سخت جان اور ماہر نشانہ باز تیار کیۓ گئے تھے جن کی قیادت ایک قابلِ بھروسہ مگر (سیاسی محرکات کے حامل) ایک ایسے شخص کو سونپی گئی جو جنرل اکبر خان کا انتخاب اور پسندیدہ تھا (میں خود نام نہیں لے رہا )۔
اس خصوصی دستہ کی ذمہ داری ایئرپورٹ کو، عقب سے چاروں اطراف سے گھیرے رکھتے ہوئے، دور سے اہداف کو نشانہ بنانا اور فائرنگ کرنا تھا تاکہ بھارتی فوجی طیارے وہاں اُتر نہ پائیں۔ یہ کوئی مُشکل کام نہ تھا۔
پوری ریاست میں پھیلی ہوئی ڈوگرہ فوج کمزور اور غیر مؤثر ہوچکی تھی۔ بانہال درہ، دُشوار گذار تھا اور بھارتی فوج کے لیۓ وہاں پہنچنا کسی صورت ممکن نہ تھا۔ لہذا ڈوگرہ یا بھارتی وادئِ کشمیر کا دفاع کرنے کے قطعی قابلِ نہیں تھے،
ہمارے نشانہ بازوں کے اُس خصوصی دستہ اور کماندان کا کوہالہ سے کچھ آگے بڑھنے کے بعد، واپسی ایک ایسا المیہ تھا جس کے باعث 27 اکتوبر 1947 کو بھارتی فوجی بلا مزاحمت سرینگر ایئرپورٹ پر اُترنے، کشمیر میں داخل ہونے اور قابض ہونے میں کامیاب ہوگئی۔
ہمارے مجاہدین بارہ مولہ اور پٹھان علاقہ میں پہلی انڈین رجمنٹ اور اس کے کمانڈروں کا پہلے ہی تقریباً مکمل خاتمہ اور صفایا کرچکے تھے۔ یہ (Kamaoon Regiment) تھی جس میں سکھ بھی شامل تھے۔ کشمیر کی تحریکِ آزادی کی تاریخ کا یہ ایک اہم واقعہ تھا۔
دوسرا اہم واقعہ جس کو میں یہاں بیان کرنا چاہتا ہوں وہ 24 اکتوبر 1947 کو جموں و کشمیر میں ایک متوازی حکومت کے قیام کا باقاعدہ اعلان تھا جس کا سربراہ میں خود تھا۔
اُس وقت ہمارے پاس تیس سے چالیس ہزار کے لگ بھگ افسران اور نفری موجود تھی۔ ہم پونچھ شہر کے سوا، پورے صوبہ کو آزاد کرواچکے تھے۔ میرپور اور کوٹلی بھی تقریباً آزاد ہوچکے تھے۔
ریاست کے مجموعی رقبہ (84,000 مربع میل) کے تقریباً آدھے پر ہمیں کُلی اختیار حاصل تھا اور کارگل کا انتہائی شمالی علاقے کا وسیع رقبہ بھی ہمارے زیرِ اثر آچکا تھا۔
ہم، وادی کے شو پیاں قصبہ کے عقب میں تھے۔ راجوڑی فتح کرنے کے بعد، ہم وہاں ایک انتظامی یونٹ مقرر کرچکے تھے۔
یہ میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ بھارت نے پاکستان کے خلاف آسمان سر پر اُٹھا رکھا تھا اور پاکستان کو مسلسل جارح قرار دے رہا تھا۔ اور ایسا لگتا تھا کہ پاکستان کے ساتھ جنگ ہونے والی ہے۔
پاکستانی فوج، پورے برِصغیر میں پھیلی ہوئی تھی اور حالات کسی بھی وقت تشویشناک شکل اختیار کرسکتے تھے۔ ہر روز ہزاروں کی تعداد میں مہاجرین پاکستان پہنچ رہے تھے جس کے باعث حکومتِ پاکستان کو مُشکلات کا سامنا تھا۔
ادھر بھارت نے مہاراجہ کے کسمپُرسی کی حالت میں سرینگر سے فرار کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے، 27 اکتوبر 1947 کو مہاراجہ کے ساتھ الحاق کا ایک مشروط معاہدہ کیا اور کشمیر میں اپنی فوج اُتارنے کا ایک عیارانہ حربہ استعمال کرتے ہوئے اختیار سنبھال لیا جبکہ پاکستان ایسے کسی قانونی استحقاق سے محروم رہا۔
میں فوری طور پر کراچی روانہ ہوا اور حکومتِ پاکستان کو یہ مشورہ دیا کہ وہ ریاستِ کشمیر کے الحاق کو آزاد جموں و کشمیر حکومت کے ایماء پر تسلیم کرلے تاکہ پاکستان کو اپنی افواج جموں و کشمیر میں داخل کرنے کا قانونی حق حاصل ہوجائے۔
نومبر 1947 کے آغاز میں، قائدِ اعظم کا نقطۂ نظر بھی تقریباً یہ ہی رہا ہوگا جبکہ میری تجویز کو وزیرِ اعظم لیاقت علی خان نے رد کردیا۔
مجھے یقین ہے کہ اگر پاکستان ہمت سے کام لیتا تو کوئی راستہ نکل آتا اور یہ معاملہ ہماری خواہشات کے مطابق طے پاجاتا۔ میرے خیال میں اس تجویز پر عمل نہ کرنا،  پاکستان  کی ایک سنگین غلطی تھی۔

(جاری ہے)

سردار محمد ابراہیم خان