مصنف سردار یعقوب خان:
ریاست حیدراُباد
اب ہم یہاں، ایک بڑی اور اہم ریاست، حیدرآباد کا ذکر کریں گے جو 1948 کے یومِ آزادی تک کوئی فیصلہ نہیں کرپائی تھی، کا ذکر کریں گے۔
حیدرآباد کا بلا تاریخی تسلسل جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ نسبتاً ایک پیچیدہ مسئلہ (کشمیر) کے کئی ماہ بعد اُبھرتا ہے مگر ایک حکمتِ عملی کے تحت جلد ہی نمٹا لیا جاتا ہے۔
حیدرآباد کا جغرافیائی محلِ وقوع، جونا گڑھ کے بالکل برعکس تھا۔ البتہ اس کی آبادی کا معاملہ جونا گڑھ جیسا ہی تھا۔
تاریخی لحاظ سے ایک مسلمان حکمران، نظام جو کوئی بہت ہی متاثرکُن شخصیت نہ تھی، ہندو اکثریت پر راج کررہا تھا۔
برطانوی راج کے تحت حیدرآباد، ہندوستان کی ایک بڑی ریاست تھی۔ نظام کو دیگر والیانِ ریاست میں ایک ممتاز حیثیت حاصل تھی۔
وہ برطانوی حکومت کے ایک وفادار اتحادی تھے۔ اُنہیں اور اُن کے آباؤ اجداد کو 1857 کے بعد پورے برصغیر میں مُغل روایات کا پاسبان تصور کیا جاتا تھا۔
بیرار (Berar) کی وسیع اراضی سے جبریہ دست کشی کے باوجود، حیدرآباد کا رقبہ 82 ہزار مربع گز تھا یعنی ایک عام اندازے کے مطابق برطانیہ بشمول سکاٹ لینڈ یا مغربی جرمنی یا رومانیہ جتنا۔
1941 کی مردم شماری کے مطابق اس کی آبادی 16 ملین تھی۔ خودمختار حیثیت رکھنے کے باوجود ایک بڑی خامی، چاروں جانب سے خُشکی میں گھرا ہونا تھا۔ اس کے پاس جونا گڑھ کی طرح ساحلِ سمندر تھا اور نہ ہی کشمیر کی طرح پاکستان کے ساتھ زمینی رابطہ کی آسانی۔ اسی وجہ سے اگست 1947 میں، حیدرآباد نے اپنے آپ کو انڈین یونین میں گھرا ہوا اور بے دست و پا پایا۔
مصنف سٹیفنز نے کشمیر کے بارے میں (صفحہ -196 پر) بالخصوص کچھ یوں تبصرہ کیا ہے:
“کشمیر ایک ایسی تیسری ریاست تھی جو بھارت کے یومِ آزادی تک کوئی فیصلہ نہ کرپائی تھی۔ اور جیسا کہ پہلے بتایا جاچکا ہے، فرقہ وارانہ سیاست کا رُخ ایک تباہ کُن جھگڑے کی طرف موڑ دیا گیا جو پاکستان اور بھارت کے درمیان معاملات میں ‘ تمام بُرائیوں کی جڑ’ ثابت ہوا۔
ریاستِ کشمیر
کشمیر کی تقریباً 77 فیصد آبادی مُسلمان تھی جبکہ مہاراجہ ایک ناہنجار اور بدکردار ہندو تھا۔ بھارت نے یہاں بھی حقائق اور شواہد کو روندتے ہوئے ، روایتی ہٹ دھرمی،غیرجمہوری ہتھکنڈے اور موروثی عیاری سے کام لیا۔
1947 کے آخر میں، ایک بار پھر ریاست کی مُتمول اور نصف سے زائد آبادی کے خلاف مسلح افواج کی مدد سے جارحیت کا پُرانا طریقہ اپنایا۔ قبضہ جمائے رکھا اور حقِ رائے دہی کے جھوٹے وعدہ کی گردان بھی جاری رکھی۔ آئیے! اب ذرا اس افسوسناک اور منافقانہ صورتِ حال کا جائزہ لیں۔
کشمیر! دراصل ریاست جموں و کشمیر ۔ حیدرآباد (بیرار کے سوا) سے کچھ بڑی مگر اپنے محلِ وقوع کے اعتبار سے حیدرآباد سے زیادہ اہم تھی۔ اس کا پہاڑی سلسلہ مرکزی ایشیا،،روس، چین اور افغانستان سے منسلک تھا۔ اس کی آبادی چار ملین تھی یعنی حیدرآباد کی ایک چوتھائی۔
سرینگر! اس زرخیز، سرسبز و شاداب اور آباد وادی کا مرکز اور اصل کشمیر ہے۔ قدرتی حُسنِ سے مالامال مگر 1947 سے بھارت کے زیرِ تسلط سراسیمہ، بُجھا بُجھا اور گہنایا ہوا۔ زخم خوردہ اور داغ داغ کہ صدیوں سے حملہ آوروں کے لیۓ کشش کا باعث رہا۔
مُسلم دور سے پہلے، Mihirakula، جس کا تعلق مرکزی ایشیا کے خانہ بدوش (White Hun) سے بتایا جاتا ہے، کا ایک بادشاہ یا ظالم شنکر ورمان، ان کے بعد چودہویں اور پندرہویں صدی کے قطار اندر قطار، سلاطین دہلی سے جُڑے ہوئے مُسلمان مہم جُو بشمول جنونی بُت شکن سکندر اور پھر مغل شہنشاہ جنہوں نے یہاں شاندار باغات اور یادگاریں بھی قائم کیں۔ پھر افغان جنکی اکثریت بھی کچھ مختلف نہ تھی۔ ایک ظالمانہ سکھ دور (رنجیت سنگھ) اور جنوبی پہاڑی علاقوں سے تعلق رکھنے والے مشکوک کردار ڈوگرہ ہندو۔ یہ سب اس بدقسمت وادی پر چھائے اور سیاہ و سُفید کے مالک بنے رہے جبکہ اس کی باصلاحیت آبادی جو ریاست کے جنوبی ڈوگروں، جنوب مغربی سُدھن یا شمال کے گلگتی باشندوں کے مقابلہ میں کئی اعتبار سے بہتر، سوجھ بوجھ کی حامل اور اہل تھی، شکستہ دل وگریزاں اور خاموش تماشائی بننے پر مجبور کردی گئی۔
اس کا بدترین اور شرمناک باب، مہاراجہ کی ابوالہوسی اور اُس کے لالچی افسران کے ظلم و ستم سے عبارت ہے۔
1846 میں برطانوی پُشت پناہی سے ڈوگرہ راج اور پھر 1889 میں Landsdowne انتظامیہ کی آمدنی و محصولاتی (مرے کو مارے شاہ مدار کے مصداق) تصفیہ کی چند جھلکیاں، والٹر لارنس اور ایف۔ایف۔نائٹ کی تحریروں میں ملتی ہیں۔
میں یہاں تحریکِ آزادی کے آغاز کا ایک بار پھر حوالہ دینا چاہوں گا جس کا ذکر اُس نے اپنی کتاب میں (صفحہ-200) پر کیا ہے۔
(جاری ہے)
سردار محمد ابراہیم خان
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی