i پاکستان

بلوچستان کی سکیورٹی صورتحال: حکومت کا لیویز فورس پولیس میں ضم کرنے کا فیصلہتازترین

March 18, 2025

بلوچستان حکومت نے ڈیڑھ صدی پرانی لیویز فورس کو صوبائی پولیس میں ضم کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو صوبے میں 82 فیصد علاقے میں امن وامان کی ذمہ دار ہے۔ وزیراعلی بلوچستان میر سرفراز احمد بگٹی نے ایک انٹرویو میں تصدیق کی کہ لیویز کو پولیس میں ضم کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے تاہم انہوں نے مزید تفصیلات نہیں بتائیں۔حکومتی ذرائع کے مطابق یہ فیصلہ اعلی عسکری اور سول قیادت کے مابین متعدد اجلاسوں کے بعد کیا گیا ہے، جس کا مقصد سول فورسز کی استعداد بڑھا کر عسکریت پسندی کے خلاف جنگ میں ان کے کردار کو مضبوط بنانا ہے۔ لیویز فورس 2010 میں منظور کیے گئے ایک قانون کے تحت کام کر رہی ہے، جس کی منسوخی اور انضمام کے لیے صوبائی کابینہ سے منظوری اور اسمبلی سے قانون سازی کرنا ہوگی۔ اس سلسلے میں حکومت کو نہ صرف اپوزیشن بلکہ حکومت کے اپنے ارکان کی مخالفت کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ سرکاری طور پر لیویز کے انضمام کے لیے اب تک کوئی کارروائی شروع نہیں ہوئی، تاہم آئندہ آنے والے دنوں میں اس سلسلے میں حکمت عملی ترتیب دی جائے گی۔اس سے پہلے 2003 میں فوجی حکمران پرویز مشرف کے دور میں بھی لیویز فورس کو پولیس میں ضم کیا گیا تھا لیکن 2010 میں نواب اسلم رئیسانی کی قیادت میں پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت نے اسے دوبارہ بحال کر دیا تھا۔لیویز اور پولیس کے دوبارہ انضمام کی باتیں کئی مہینوں سے چل رہی تھیں۔

میڈیارپورٹ کے مطابق بلوچستان حکومت کے ایک سینیئر عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ نومبر 2024 میں کوئٹہ ریلوے سٹیشن پر ہونے والے خودکش حملے کے بعد وزیراعظم میاں شہباز شریف اور آرمی چیف جنرل حافظ عاصم منیر کے دورہ کوئٹہ کے دوران ایپیکس کمیٹی کے اجلاس میں لیویز اور پولیس کے انضمام پر بحث ہوئی تھی۔عہدیدار کے مطابق بحث میں وزیراعلی بلوچستان اور حکومتی نمائندوں نے لیویز کے انضمام کی مخالفت کی تھی۔ تاہم جعفر ایکسپریس ٹرین ہائی جیکنگ واقعے کے بعد جب اعلی وفاقی سول اور عسکری قیادت نے کوئٹہ کا دورہ کیا تو اجلاس میں عسکری حکام نے ایک بار پھر صوبے میں پولیسنگ کے دوہرے نظام اور لیویز کی کارکردگی پر اعتراض اٹھایا اور لیویز فورس کو پولیس میں ضم کرنے پر زور دیا۔ حکومتی عہدیدار نے مزید بتایا کہ حکومت نے لیویز کو یکدم پولیس میں ضم کرنے کے اقدام کی مخالفت کرتے ہوئے اسے مرحلہ وار کرنے پر زور دیا اور پہلے مرحلے میں رواں سال صوبے کے مزید پانچ اضلاع میں پولیس کے اختیار میں دینے کی تجویز دی، لیکن حالات نے ایسا رخ اختیار کر لیا، کہ لیویز فورس کو اصلاحات کے ساتھ جدید شکل دے کر برقرار رکھنے کے حامی وزیراعلی سرفراز بگٹی کو بالآخر ہار ماننا پڑی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ کالعدم تنظیموں کی افرادی قوت میں اضافہ ہوا ہے وہ اسلحہ کی کمی پورا کرنے کے لیے لیویز اور پولیس کے ان مقامی اہلکاروں اور تھانوں پر بھی حملے کرکے ان سے اسلحہ، گاڑیاں اور دیگر وسائل چھین رہے ہیں جنہیں پہلے وہ کم ہی ہدف پر رکھتے تھے۔پولیس اور لیویز تھانوں، چوکیوں اور ناکوں پر گزشتہ چند ماہ میں درجنوں ایسے حملے ہوچکے ہیں، جس میں دونوں سول فورسز کے اہلکار عسکریت پسندوں کے سامنے بے بس دکھائی دئیے۔ذرائع کے مطابق پولیس اور لیویز کے اس رد عمل اور اس سے حکومتی رٹ کی کمزوری کے تاثر کو تقویت ملنے پر عسکری قیادت کی جانب سے سخت رد عمل کا اظہار کیا گیا اور حکومت پر زور دیا گیا ہے کہ وہ صوبے میں پولیسنگ کے دوہرے نظام کو ختم کرکے سول فورسز کو عسکریت پسندی کے خلاف جنگ میں ملٹری اور پیرا ملٹری فورسز کے شانہ بشانہ لڑنے کے قابل بنائیں۔بلوچستان حکومت کے ذرائع کا کہنا ہے کہ لیویز فورس کے انضمام کا اقدام سول فورسز کی استعداد بڑھانے کی ان کوششوں کا حصہ ہوگا جس کا اشارہ وزیراعلی بلوچستان نے اپنے حالیہ بیانات میں دیا ہے۔ بلوچستان حکومت کے ذرائع کے مطابق صرف لیویز ہی نہیں بلکہ بلوچستان پولیس کے ذیلی ادارے بلوچستان کانسٹیبلری کے مستقبل پر بھی غور کیا جا رہا ہے۔

کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی