i پاکستان

بچوں کے تحفظ کے قوانین میں خامیاں دور کی جائیں: ماہرینتازترین

January 31, 2025

ماہرین نے پاکستان میں بچوں کے خلاف تشدد اور گمشدگی کے بڑھتے ہوئے واقعات پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی استعداد کار میں اضافے اور قانون سازی میں موجود سقم دور کرنے پر زور دیتے ہوئے قرار دیا ہے کہ بچوں کے اغوا اور بدسلوکی کے کیسز کی مو¿ثر رپورٹنگ اور تیز رفتار عدالتی کارروائی کی ضرورت ہے۔ انہوں نے یہ باتیںپالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی (ایس ڈی پی آئی) نے روشنی ہیلپ لائن کے اشتراک سے ”پاکستان میں لاپتہ بچوں اور بچوں پر تشدد کے کیسز سے نمٹنے میں قانون سازی کی خامیاں“ کے موضوع پر ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہیں۔ مقررین نے قانونی رکاوٹوں، تفتیشی عمل کی سست روی اور بچوں کے تحفظ کے لیے فوری اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا۔ایس ڈی پی آئی کے ڈپٹی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر شفقت منیر نے کہا کہ ملک میں لاپتا بچوں کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے، مگر تفتیشی عمل سست اور غیر مو¿ثر ہے۔ انہوں نے پولیس کے تربیتی معیار میں بہتری لانے اور جدید تکنیکی وسائل سے استفادہ کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔روشنی ہیلپ لائن کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر محمد علی نے بتایا کہ ان کی تنظیم 1999 میں قائم کی گئی تھی اور اب تک 11,800 سے زیادہ لاپتہ بچوں کو ان کے اہل خانہ سے دوبارہ ملانے میں مدد فراہم کر چکی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ادارے کا 9000 رضاکاروں پر مشتمل نیٹ ورک سوشل میڈیا کے ذریعے بچوں کی گمشدگی کے خلاف اہم کردار ادا کر رہا ہے۔روشنی ہیلپ لائن کے ٹریننگ منیجر علی شان نے زینب الرٹ، رسپانس اینڈ ریکوری ایکٹ 2020 میں خامیوں کی بھی نشاندہی کی۔

انہوں نے بتایا کہ بچوں پر تشدد کے واقعات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اور شہری علاقوں میں 11 سے 15 سال کی عمر کے بچے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں جبکہ پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 364-A صرف 14 سال سے کم عمر بچوں کے اغوا تک محدود ہے، جو غیر مو¿ثر ہے۔سابق سینیٹر ڈاکٹر مہر تاج روغانی پاکستان تحریک انصاف نے کہا کہ پاکستان میں بچوں کے تحفظ کے لئے قوانین تو موجود ہیں لیکن لاپتا بچوں کا معاملہ ان میں شامل نہیں۔ انہوں نے پولیس، سماجی تحفظ کے اداروں اور کمیونٹی سروسز کے مابین بہتر رابطے، قومی سطح پر ڈیٹا بیس کے قیام اور مو¿ثر قانون سازی کی ضرورت پر زور دیا۔پاکستان پیپلز پارٹی کی رکن قومی اسمبلی اور انسانی حقوق کمیٹی کی رکن سحر کامران نے کہا کہ بچوں پر تشدد کے قوانین عموماً ردعمل کی بنیاد پر بنائے جاتے ہیں لیکن ان کے نفاذ میں سنجیدگی کا فقدان ہے۔سابق انسپکٹر جنرل پولیس سید کلیم امام نے کہا کہ پاکستان کا فوجداری نظام نوآبادیاتی دور کا ورثہ ہے اور پولیس کو وسائل کی کمی جیسے سنگین مسائل درپیش ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پولیس اہلکاروں کو بچوں پر تشدد اور گمشدگی کے معاملات پر خصوصی تربیت دینے کی اشد ضرورت ہے۔سید کلیم امام نے بچوں کے تحفظ کے لئے جامع اصلاحات، سخت سزاو¿ں، پولیس کی استعداد کار میں اضافے اور ایک مو¿ثر حکمت عملی اپنانے پر زور دیا۔

کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی