وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ کی جرمانے کے خلاف اپیل پر سماعت میں الیکشن کمیشن نے فیصلہ محفوظ کرلیا۔ تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر کے وکیل نے دوران سماعت دلائل دیے کہ نوٹس موصول نہیں ہوا لیکن جرمانہ کر دیا گیا۔ کمیشن کے ممبر پختونخوا نے کہا کہ ڈی ایم او آرڈر میں لکھا ہے کہ رانا ثنااللہ نے جواب جمع کرایا تھا۔ اگر نوٹس ملا نہیں تھا تو جواب کیسے جمع کرا دیا، جس پر وکیل نے بتایا کہ جس نوٹس کا جواب دیا تھا اس میں جرمانہ نہیں ہوا بلکہ وارننگ ملی تھی۔ چیف الیکشن کمشنر نے ریمارکس دیے کہ کیا رانا ثنااللہ نے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی نہیں کی؟، جس پر وکیل نے جواب دیا کہ وزیرِداخلہ ووٹ ڈال کر نکلے تو میڈیا والوں نے سوال پوچھ لیے۔ ووٹنگ کے عمل سے مطمئن ہونے کے سوال کا جواب دیا تو جرمانہ ہوگیا۔اسپیشل سیکرٹری الیکشن کمیشن نے دوران سماعت کہا کہ رانا ثنااللہ نے پولنگ اسٹیشن کی حدود میں پریس کانفرنس کی تھی۔ رانا ثنااللہ نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ انہوں نے عابد شیر علی کو ووٹ دیا۔ ووٹ کی رازداری نہ رکھنے پر بھی کارروائی ہونی چاہیے۔ جس پر ممبر کے پی نے کہا کہ ووٹ کی رازداری کے لیے الگ نوٹس جاری کرنا ہوتا ہے۔ اسپیشل سیکرٹری نے مزید بتایا کہ رانا ثنا اللہ کی میڈیا سے گفتگو کے وقت نعرے بازی بھی ہوئی۔ چیف الیکشن کمشنر نے استفسار کیا کہ ریٹرننگ افسر نے نعرے بازی پر کیا ایکشن لیا؟اسپیشل سیکرٹری نے بتایا کہ نعرے لگانے والوں کو باہر نکالنے کا حکم دیا گیا تھا۔ رانا ثنااللہ کو بھی حلقہ بدر کرنے کا حکم جاری ہوا تھا۔ چیف الیکشن کمشنر نے استفسار کیا کہ رانا ثنااللہ نے کہا عابد شیر علی کو ووٹ دیا ہے، اس نقطے پر کیا کہیں گے؟۔ ممبر پنجاب نے کہا کہ اس طرح رازداری رکھنی ہے تو بیلٹ پیپر پر مہر کھلے عام لگانی چاہیے۔ بعد ازاں الیکشن کمیشن نے رانا ثنا اللہ کی 10 ہزار جرمانے کے خلاف اپیل پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی