مشیر سیاسی امور رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ قومی اخبارات میں وزیراعلی پنجاب کے اشتہارات چھپنے پر مریم نواز کا کوئی قصور نہیں،مریم نوازیقینا بہت زیادہ محنت کررہی ہیں،اشتہارات کا معاملہ مریم اورنگزیب سے پوچھوں گا، اگر ذاتی پبلسٹی کا تاثر آرہا ہے تو ایسا نہیں ہونا چاہئے، قومی کرکٹ ٹیم چیمپیئنز ٹرافی سے باہر ہونے پر بہت افسوس ہوا ہے، کرکٹ بورڈ کے حالات کو درست کرنے کیلئے پروفیشنل لوگوں کو آنا چاہئے، جس کا زور چلتاہے پی سی بی میں جاکر بیٹھ جاتا ہے۔ ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا اخبارات کے فرنٹ پیج پر وزیراعلی پنجاب کے اشتہارات چھپنے کا معاملہ مریم اورنگزیب سے ضرور پوچھوں گا ۔ وزیراطلاعات اگرچہ عظمی بخاری ہیں لیکن مریم اورنگزیب کی موجودگی میں ایسا نہیں ہونا چاہئے تھا کیونکہ ان کو میڈیا اور وزارت اطلاعات کا بہت زیادہ تجربہ ہے۔ راناثنااللہ نے کہا کہ چیف جسٹس موجودہ کریمنل جسٹس سسٹم میں ریفارمز کرنا چاہتے ہیں، وزیراعظم سے بھی ملاقات کی ہے اور اپوزیشن سے بھی ملاقات کی ہے یہ بہت اچھی بات ہے، دیگر تمام اسٹیک ہولڈر کو بھی ملنا چاہئے، سب کو مل کر مشاورت کے ساتھ ریفارمز کرنی چاہئیں، سپریم جوڈیشل کمیشن کے نمائندے اختر حسین کا استعفا ایسے ہی ہے کہ اگر کسی بندے کو موت کا پتا چل جائے تو وہ کوئی ایسا کام کرے جس سے اس کو شہادت کا درجہ مل جائے۔اخترحسین بزرگ اور اچھے آدمی ہیں لیکن یہ اچھا کام نہیں کیا۔
اختر حسین کی ایک ماہ بعد مدت پوری ہورہی ہے اور کلمہ شہادت بلند کردیا ہے، اگر اعتراض تھا تو 26ترمیم کے تحت پہلے جوڈیشل کمیشن کے اجلاس سے اٹھ جاتے۔ انہوں نے کہا کہ قومی کرکٹ ٹیم چیمپیئنز ٹرافی سے باہر ہونے پر بہت افسوس ہوا ہے، اس افسو س میں اضافہ ہوتا رہے گا جب تک چیمپیئنز ٹرافی اختتام پذیر نہیں ہوتی۔پاکستان چیمپیئنز ٹرافی کرانے کا میزبان ہے، چیمپیئنز ٹرافی کے انعقاد کیلئے 12سے 14ارب روپے خرچ کئے گئے، یہ بڑا کہا گیا کہ اتنے دنوں میں یہ یہ ہوگیا، اب ہم ٹورنامنٹ سے باہر ہیں، دنیا کی ٹیمیں کرکٹ کھیلیں گی جبکہ ہم تماشائی بن کر دیکھ رہے ہوں گے۔جتنی توجہ پیسے خرچ کرنے پر دی اتنی توجہ ٹیم پر بھی دی جانی چاہئے تھی، کیونکہ کرکٹ ٹیم نے کھیلنی تھی اسٹیڈیم نے نہیں۔ ساری صورتحال کو سامنے رکھ کر کرکٹ بورڈ کے حالات کو درست کرنا ہوگا۔ محسن نقوی پہلا چیئرمین نہیں جو کسی کی پسند اور ناپسند ہے، کرکٹ بورڈ میں بے پناہ پیسا ہے ، لوگ وہاں امیر ہونے کیلئے آتے ہیں۔ اپنی ڈیوٹی وہاں ڈیپوٹیشن پر لگوائی جاتی ہے تاکہ ہم بھی وہاں سال دوسال پیسے کما لیں۔پی سی بی میں ترقیاتی کاموں اور کرکٹ معاملات کا اختیار تقسیم ہونا چاہیئے۔ جتنی مراعات اور پیسا چیئرمین پی سی بی یا دیگر کو حاصل وزیراعظم اور صدر ان کو ٹچ بھی نہیں کرسکتے۔جس کا زور چلتا ہے وہ وہاں جاکر بیٹھ جاتا ہے۔باقی بات لوگوں پرچھوڑتے ہیں لوگ سمجھتے ہیں۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی