پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی نے پاکستان کے صنعتی ڈی کاربنائزیشن پروگرام (پی آئی ڈی پی) کا آغاز کر دیا ہے۔ اس پروگرام کا آغاز ایس ڈی پی آئی کے نیٹ ورک فار کلین انرجی ٹرانزیشن (این سی ای ٹی) کے زیر اہتمام پاکستان میں منصفانہ توانائی کی منتقلی سے متعلق پالیسی ڈائیلاگ کے دوران کیا گیا۔ صنعتی شعبے میں ڈی کاربنائزیشن مہم پر تبادلہ خیال اور تعاون کے لئے سفارتی مشنوں، ترقیاتی شراکت داروں اور سرکاری شعبے کے اداروں سمیت اہم سٹیک ہولڈرز کو مدعو کیا گیا تھا۔اس پروگرام کا مقصد شراکت داروں کی مہارت اور وسائل سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان کے صنعتی شعبے میں کاربن کے اخراج کو نمایاں طور پر کم کرنا ہے۔ ابتدائی مرحلے میں سیمنٹ، اسٹیل اور ٹیکسٹائل کی اہم صنعتوں کو ہدف بنایا گیا ہے تا کہ انہیں یورپی یونین کے کراس بارڈر ایڈجسٹمنٹ میکانزم (سی بی اے ایم) کے ساتھ ہم آہنگکیا جا سکے۔ مباحثہ سے خطاب کرتے ہوئے نیشنل انرجی ایفیشینسی اینڈ کنزرویشن اتھارٹی (این ای ای سی اے) کے منیجنگ ڈائریکٹر ڈاکٹر سردار معظم نے توانائی کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے متنوع توانائی پورٹ فولیو کی اہمیت اور قابل تجدید توانائی کی طرف منتقلی پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے بڑھتے ہوئے گردشی قرضوں پر بھی تشویش کا اظہا رکیا۔
ڈاکٹر معظم نے قابل تجدید توانائی کی طرف منتقلی کی حمایت کے لئے جدید فنانسنگ ڈیزائن کی ضرورت اور مناسب مالیاتی اختیارات کی تلاش کے لئے کثیر الجہتی مالیاتی اداروں کے ساتھ بات چیت کی ضرورت پر زور دیا۔ ایس ڈی پی آئی کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ڈاکٹر عابد قیوم سلہری نے اپنے افتتاحی خطاب میں فوسل فیول سے قابل تجدید توانائی کی طرف منتقلی کو پاکستان جیسے ترقی پزیر ممالک کیلئے ایک بڑا چیلنج قرار دیتے ہوئے ٹیکنالوجی اور فنانسنگ کیلئے بین الاقوامی تعاون کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس مکالمے کا مقصد باکو میں ہونے والی سی او پی 29 میں تبادلہ خیال کیلئے اہم ترقیاتی شراکت داروں اور جی 7 کے سفارتکاروںکیلئے سفارشات جمع کرنا ہے۔
ڈی کاربنائزیشن پروگرام کی ریسرچ ایسوسی ایٹ اور سربراہ صالحہ قریشی نے کہا کہ پاکستان انڈسٹریل ڈی کاربنائزیشن پروگرام کے ذریعے تعاون، تحقیق، استعداد کار میں اضافے اور پالیسی کی ترقی کے عالمی اہداف حاصل کرنا ہے۔ پہلے مرحلہ میںسیمنٹ، سٹیل اور ٹیکسٹائل جیسی اہم صنعتوں میں زیرو انرجی پاور فیول، تجارتی پالیسیوں اور گرین ہاو¿سنگ کا احاطہ کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ یہ اقدام توانائی اور آب و ہوا کے اقدامات کے لئے ہماری اجتماعی کوششوں کی شروعاتہے۔جی آئی زیڈ کی ایڈوائزر محترمہ ثوبیہ بیکر نے قابل تجدید توانائی کی طرف منتقلی کی فوری ضرورت پر زور دیتے ہوئے یورپ کے مقابلے میں بلوچستان میں گرین ہائیڈروجن کی تیاری میںبچت کے امکانات پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے پاکستان میں مسلسل بدلتے ریگولیٹری ماحول کی وجہ سے درپیش چیلنجز کی نشاندہی کی جو بین الاقوامی سرمایہ کاری اور ترقیاتی اقدامات میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔
ایس ڈی پی آئی کے ڈپٹی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر شفقت منیر نے سٹیک ہولڈرز کو پاکستان میں توانائی اور موسمیاتی ایکشن کے لئے مشترکہ کوششوں میں ایس ڈی پی آئی کے ساتھ شامل ہونے کی دعوت دی۔ توانائی کی منتقلی کے امکانات پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے ، انہوں نے توانائی کی بحث میں مثالی تبدیلی کی ضرورت پر روشنی ڈالی ۔ انہوں نے مقامی سطح پر نوآبادیاتی نقطہ نظر کو ختم کرنے پر زور دیا ۔ایس ڈی پی آئی کے ریسرچ فیلو ڈاکٹر خالد ولید نے پاکستان کے لئے جسٹ انرجی ٹرانزیشن پارٹنرشپ (جی ای ٹی پی) ماڈل پیش کیا۔ جس میں بتایا گیا کہ پاکستان اپنی صاف توانائی کی منتقلی کو ممکن بنانے کے لئے ضروری مالی اعانت کو کس طرح متحرک کرسکتا ہے اور ملک میں قابل تجدید توانائی کی ترقی کے لئے سرمایہ کاری لاسکتا ہے۔ مزید برآں، مکالمے میں متعدد اہم موضوعات پر روشنی ڈالتے ہوئے جامع توانائی پالیسیوں کی اہمیت پر زور دیا گیا۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی