i پاکستان

آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں کو ملزمان کے فیصلے سنانے کی اجازت دیدیتازترین

December 13, 2024

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں کو ملزمان کے کیسز کے فیصلے سنانے کی اجازت دیدی۔ سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے جسٹس امین الدین کی سربراہی میں ملٹری کورٹس کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت کی جہاں وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دئیے۔ سماعت کے آغاز میں جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دئیے کہ اس نکتے پر دلائل دیں کہ آرمی ایکٹ کی کالعدم دفعات آئین کے مطابق ہیں، کیا آرمی ایکٹ میں ترمیم کرکے ہر فرد کو اس کے زمرے میں لایا جا سکتا ہے؟ اس پہلو کوبھی مدنظر رکھیں کہ آرمی ایکٹ 1973 کے آئین سے پہلے بنا تھا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا پہلے بتائیں عدالتی فیصلے میں دفعات کالعدم کرنے کی وجوہات کیا ہیں؟ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں خامیاں ہیں۔جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دئیے کہ کل بھی کہا تھا کہ 9 مئی واقعات کی تفصیلات فراہم کریں، فی الحال تو ہمارے سامنے معاملہ صرف کور کمانڈر ہاس کا ہے، اگر کیس صرف کور کمانڈر ہائوس تک ہی رکھنا ہے تو بھی آگاہ کردیں، اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا تمام تفصیلات آج صبح ہی موصول ہوئی ہیں، تفصیلات متفرق درخواست کی صورت میں جمع کرائوں گا۔آئینی بینچ میں شامل جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا جن دفعات کو کالعدم قرار دیا گیا ہے ان کے تحت ہونے والے ٹرائل کا کیا ہوگا؟ 9 مئی سے قبل بھی تو کسی کو ان دفعات کے تحت سزا ہوئی ہو گی، وزارت دفاع کے وکیل نے جواب دیا عموما کالعدم ہونے سے پہلے متعلقہ دفعات پر ہوئے فیصلوں کو تحفظ ہوتا ہے، اس پر جسٹس مسرت نے ریمارکس دیے کہ یہ تو ان ملزمان کے ساتھ تعصب برتنے والی بات ہوگی۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ افواجِ پاکستان میں کوئی شخص زبردستی نہیں بلکہ اپنی مرضی سے جاتا ہے، فوج میں شامل ہونے والیکو معلوم ہوتا ہے کہ اس پر آرمی ایکٹ لاگو ہوگا اور آرمی ایکٹ کے تحت بنیادی حقوق میسر نہیں ہوتے، آرمی ایکٹ بنایا ہی فوج کی ملازمت کے قواعد اور ڈسپلن کے لیے ہے، اس پر وکیل خواجہ حار ث نے کہا کہ فوج میں کوئی بھی جرم کی نیت سے نہیں جاتا، بنیادی حقوق جرم کرنے پر ہی ختم ہوتے ہیں۔ جسٹس مندوخیل نے پوچھا کیا اپیل میں سپریم کورٹ صرف اپیل کنندہ کی استدعا تک محدود رہے گی؟کیا عدالت فیصلے کے دیگر پہلو کابھی جائزہ لے سکتی ہے؟ جبکہ جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے کہ فریقین اپنی معروضات تک محدود رہ سکتے ہیں لیکن عدالت نہیں۔ سماعت کے اختتام پر آئینی بینچ نے کیس میں سماعت کا آرڈر جاری کرتے ہوئے فوجی عدالتوں کو 85 ملزمان کے فیصلے سنانے کی اجازت دے دی۔ آئینی بینچ نے کہا کہ فوجی عدالتوں کے فیصلے سپریم کورٹ میں زیرالتوا مقدمے کے فیصلے سے مشروط ہونگے، جن ملزمان کو سزاں میں رعایت مل سکتی ہے وہ دے کر رہا کیا جائے، جن ملزمان کو رہا نہیں کیا جا سکتا انہیں سزا سنانے پر جیلوں میں منتقل کیا جائے۔ عدالت نے ملٹری کورٹس کیس کی سماعت موسم سرما کی چھٹیوں کے بعد تک ملتوی کردی۔

کریڈٹ : انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی