i پاکستان

آئی پی پیز حکومت کی مجبوری نہیں، نالائقی، نااہلی اور کرپشن ہے، امیر جماعت اسلامیتازترین

July 30, 2024

امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ حکمرانوں کی نااہلی کا عذاب پوری قوم بھگت رہی ہے، آئی پی پیز حکومت کی مجبوری نہیں بلکہ نالائقی، نااہلی اور کرپشن ہے لیکن ممکن نہیں رہا کہ لوگ بھاری بل کے ساتھ اپنی ضروریات پوری کرسکیں۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان حافط نعیم الرحمن نے راولپنڈی میں دھرنے کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ لوگ کھانے پینے کی چیزوں پر بھی ٹیکس لگادیتے ہیں، انہوں نے بنیادی اشیائے خوردونوش پر 18 فیصد تک ٹیکس لگادیا، بچوں کے دودھ پر ٹیکس لگادیا، اس کے بعد لوگ کچھ کھائیں، پیئے، بل دیں یا گھر کا کرایہ دیں۔ انہوں نے کہا کہ چھوٹے کاروباری تو چھوڑیں اب تو بڑے کاروباری بھی کہہ رہے ہیں کہ ہماری صنعت نہیں چل رہی ہے، کیوں کہ حکومت کی جو ظالمانہ پالیسی ہے ، اس کے نتیجے میں صنعتیں بند ہورہی ہیں۔ حافظ نعیم الرحمن کا کہنا تھا کہ حکومت یہ بات کہتی ہے کہ ہماری مجبوری ہے، یہ مجبوریاں نہیں بلکہ نالائقی، نااہلی اور کرپشن ہے جو پوری قوم کو بھگتنا پڑرہا ہے، جب کہ ہمارے وزرا یہ اعلان کرتے ہیں کہ ہم آئی پی پیز سے بات نہیں کرسکتے۔ انہوں نے کہا کہ یہ معاہدے پیپلزپارٹی کے دور حکومت سے شروع ہوئے، پہلے 35 کمپنیوں سے معاہدے ہوئے اور پھر مشرف دور میں 45 کمپنیوں اور پھر نوازشریف کے زمانے میں تقریبا 120 کمپنیوں سے بات ہوئی، پی ٹی آئی کے دور حکومت میں بھی تقریبا 30 سے 35 کمپنیوں سے بات ہوئی، اور اس وقت بھی 100 سے 124 آئی پی پیز کی فہرست آتی ہے۔ ان کا کہنا تھا یہ معاہدے اور حقائق قوم کے سامنے نہیں لائے جاتے، یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم وہ معاہدے قوم کے سامنے نہیں لاسکتے، آپ قوم کا خون نچوڑ سکتے ہیں، بل زیادہ کرسکتے ہیں، لیکن معاہدے سامنے نہیں لائے جاسکتے۔

امیر جماعت اسلامی پاکستان نے کہا کہ ان معاہدوں میں جو ظلم انہوں نے کیا کہ اس حوالے سے ایک آئی پی پی کا حوالہ دیتا ہوں جو اس وقت چل رہی ہے، حکومت کہتی ہے آپ آر ایل این جی پر اس کو چلائیں، اس کا جو ایف سی سی ہوتا ہے یعنی فیول کی قیمت 24.01 کلو واٹ فی گھنٹہ ہے جو مئی کے مہینے میں ادا کی گئی اور جون میں 24.78 روپے کلو واٹ فی گھنٹہ پڑا، اگر یہ امپورٹڈ کوئلہ پر بھی لیتے تو 16.82 اور 15.53 پڑتا، اس کا مطلب تقریبا 7 سے 9 روپے کا فرق ہے اور اگر یہ تھرکول پر ہوتا تو یہ مزید 40 فیصد کم ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ آر ایل این جی کیو استعمال کروارہے ہیں تو وہ اس لیے کہ انہوں نے ناجائز معاہدے کیے ہوئے ہیں، انہوں نے کک بیک لیے ہوں گے جبھی تو یہ معاہدہ ہوئے ہوں گے، اور یہ غلط وقت پر اس کی خریداری اور بڈنگ کی بات کرتے ہیں، ان کی نااہلی کا عذاب پوری قوم بھگت رہی ہے اور یہ کہتے ہیں کہ ہم کچھ کر نہیں سکتے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ گزشتہ روز ہم نے مطالبہ کیا تھا کہ وزیراعظم، وزیراعلی، گورنرز تمام وزرا اور سرکاری افسران 1300 سی سی گاڑیاں استعمال کریں، وزیراعظم فوری طور پر اس حوالے سے اعلان کریں، اس اعلان سے انہیں کون روک رہا ہے، حالانکہ صرف اس ایک اقدام سے پاکستانی قوم کو ایک سال کے اندر تقریبا 350 ارب روپے کا فائدہ ہوسکتا ہے۔ حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ ان گاڑیوں کا خرچہ سرکار کی جیب سے نہیں بلکہ عوام ادا کررہی ہوتی ہے، تنخوا دار کا ٹیکس کٹ رہا ہوتا ہے تو ان کی گاڑیاں چل رہی ہوتی ہیں، یہ ہمارے بلوں میں ٹیکس کی صورت میں یہ پیسے وصول کرتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ سرکار کے پاس جو 2000 سی سی سے جتنی بھی بڑی گاڑیاں ہیں اگر صرف انہیں اس وقت فروخت کردیا جائے تو ایک ہزار سے ڈیڑھ ہزار ارب روپے ابھی فوری مل جائیں گے، لیکن یہ اپنی مراعات کم نہیں کرنا چاہتے لیکن قوم کو کہتے ہیں کہ بجلی، گیس اور پیٹرول کی قیمت کم نہیں کرسکتے۔

کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی