پشاور ہائیکورٹ نے الکوزی خاندان کے چار بھائیوں کے اغوا کے کیس میں ملزمان کی شناخت ڈبل چیک کرنے اور اسٹیشن ہاس افسر (ایس ایچ او )کو شامل تفتیش کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ پشاور ہائیکورٹ میں مقدمے کی سماعت جسٹس اعجاز انور نے کی، سماعت کے موقع پر وفاقی اسپیشل سیکرٹری داخلہ، ایڈیشنل چیف سیکرٹری عدالت میں پیش ہوئے۔ دوران سماعت جسٹس اعجاز انور نے ریمارکس دیے ملک میں آزاد ادارے کوئی نہیں ہیں، نادرا نے آنکھیں بند کی ہیں، چیف جسٹس نے اغوا میں ملوث پولیس اہلکارکی شناخت کے بعد کیس دوسری عدالت منتقل کیا۔ جسٹس اعجاز انور نے مزید ریمارکس دیے پولیس کو آزاد کروائیں پولیس آزاد نہیں ہوگی تو حالات بہتر نہیں ہوں گے، پولیس کو ان پاورکریں تاکہ وہ کسی کے اشاروں پر نہ چلے، ہمارے سامنے تو لوگ رونے لگتے ہیں، عدالت کیا کرے؟ تفتیش مکمل نہیں ہوئی تین مہینے ہوچکے ہیں۔ اس پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل ثنا اللہ نے عدالت کو بتایا الکوزی برادرز کا ایک بھائی ملوث ہے اسے گرفتار کیا جائے۔ وکیل کا کہنا تھا جس تھانے کی حدود میں کیس ہوا اس ایس ایچ او کو جے آئی ٹی نے شامل تفتیش نہیں کیا۔ اس پر عدالت نے ریمارکس دیے حیات آباد تھانے کے ایس ایچ او نے انکار کیا کہ انھیں علم نہیں ہے۔ وکیل درخواست گزار ناردہ شاہ کا دوران سماعت کہنا تھا سی سی ٹی وی فوٹیج میں ایس ایچ او کی گاڑی کو دیکھا جاسکتا ہے، جس پر جسٹس اعجاز انور نے تفتیشی افسر سے استفسار کیا آپ نے ایس ایچ او سے تفتیش کی ہے؟ تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا مجھے جو دو ویڈیوز دی گئی ہیں، اس میں یہ گاڑی نہیں دیکھی۔ پشاور ہائیکورٹ کے جسٹس اعجاز انور نے تفتیشی افسر کو ایس ایچ او کو تفتیش میں شامل کرنے اور مذکورہ ویڈیو تفتیشی افسر کو فراہم کرنے کے احکامات دیے ہیں۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی