سرحد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر حسنین خورشید احمد نے حکومت کی جانب سے بجلی کی بلوں میں فکس ٹیکس وصولی کو یکسر مسترد کردیا اور مطالبہ کیا کہ اس کو فوری طور پر واپس لیا جائے۔ گذشتہ روز تاجروں کے ایک اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے سرحد چیمبر کے صدر حسنین خورشید احمد نے کہا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے بجلی بلوں کے ذریعے 3000 تا 2000 سیل ٹیکس کا نفاذ قابل قبول نہیں ہے ۔ چھوٹے اور بڑے کاروباری اور گوداموں کی تفریق کے بغیر بجلی کے کمرشل میٹرز پر فکس سیلز ٹیکس کا جبری نظام حکومت کی کاروبار دشمن پالیسی کی عکاسی کرتا ہے جو کہ تاجروں اور عوام کا معاشی قتل کے مترادف ہے ۔ انہوں نے کہا کہ تاجر سیلز ٹیکس ادا کرچکے ہیں اور دوبارہ بجلی کے بلوں میں فکس ٹیکس کے نام پر وصولی سراسر زیادتی اور کسی صورت قابل قبول نہیں ہے ۔ اجلاس کے دوران سرحد چیمبر کے سینئر نائب صدر عمران خان مہمند نائب صدر جاوید اختر انجمن تاجران پشاور کے صدر حاجی محمد افضل اور دیگر تاجر رہنما بھی موجود تھے۔
سرحد چیمبر کے صدر نے مزید کہا کہ بجلی بلوں میں بھاری ٹیکسوں کی وصولی عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ہے ۔ اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے ۔ انہوں نے کہاکہ تاجر اور دکاندار اپنے آپ پر ظلم کرکے پسینہ نکالتا ہے اور حسب ضرورت اے سی لگتا ہے تاکہ بجلی کا خرچ ہو کم سے کم بل آئے لیکن حکومت کی جانب سے ظالمانہ ٹیکس لگا کر اس کی جیب پر ڈاکہ ڈال رہی ہے ۔ انہوں نے واضح کیا ہے کہ اگر کسی بھی تاجر کی بجلی منقطع کی گئی تو تاجر واپڈا ہائوس کا گھیرائو اور احتجاج کریں گے ۔ حکمران تاجروں اور عوام پر یہ ظلم و ستم بند کرے۔ انہوں نے فیول ایڈجسٹمنٹ پرائس کی مد میں اضافی رقم کو فوری واپس کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہاکہ اطلاعات کے مطابق یہ ظالمانہ ٹیکس آئی ایم ایف کی شرط پر لگایاگیا ہے جو کہ انتہائی قابل مذمت ہے اور ناقابل برداشت ہے جسے فوری طورپر واپس لیا جائے ۔ انہوں نے کہا کہ 3 ہزار روپے سے لیکر 20 ہزار روپے تک انکم ٹیکس بجلی بلوں میں شامل کرنا ظلم اور زیادتی ہے اور پھر ناروا ظلم یہ ہے کہ رقم ٹیکس ریٹرن میں ایڈجسٹیبل بھی نہیں کی جا رہی ہے فوری طور پر فکس ٹیکس کو واپس لیا جائے بصورت دیگر سرحد چیمبر تاجر براداری کے ساتھ مل کر راست اقدامات اٹھانے سے گریز نہیں کرے اور صوبہ بھر میں ایک منظم احتجاجی تحریک شروع کی جائے گی۔
کریڈٹ:
انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی