پاکستان اپنے بجٹ کا ایک بڑا حصہ خوردنی تیل کی درآمد پر خرچ کر رہا ہے اور بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے اس کا حجم ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھ رہا ہے۔ ویلتھ پاک کی رپورٹ کے مطابق بھاری درآمدی بجٹ قومی خزانے پر مزید دباو ڈال رہا ہے۔زرعی ماہرین کا خیال ہے کہ اگر حکومت ملک بھر میں سورج مکھی کی کاشت کو فروغ دے تو خوردنی تیل کی درآمد پر خرچ ہونے والے بجٹ کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ویلتھ پاک سے بات کرتے ہوئے زرعی سائنسدان، اعجاز احمد نے کہا کہ ایک اندازے کے مطابق پاکستان سالانہ خوردنی تیل کی درآمد پر 300 ارب روپے خرچ کرتا ہے، جو اس کی زراعت اور معیشت کو نقصان پہنچا رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ وقت کی ضرورت ہے کہ ان مصنوعات پر توجہ دی جائے جو خوردنی تیل کے درآمدی بل کو کم کر سکتی ہیں اور سورج مکھی کی پیداوار بہترین حل پیش کرتی ہے۔پنجاب حکومت کے سرکاری ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان اس وقت مطلوبہ خوردنی تیل کا صرف 18 فیصد پیدا کرتا ہے اور اس کی درآمد پر بہت زیادہ رقم خرچ کرتا ہے۔ تیل کی مقامی پیداوار میں سورج مکھی کا حصہ 11 فیصد ہے۔مختلف وٹامنزکے بہترین ذریعہ کے طور پر، سورج مکھی کے بیجوں میں 40 فیصد تیل ہوتا ہے۔ اس میں 90 فیصد غیر سیر شدہ فیٹی ایسڈ بھی ہوتے ہیں اور یہ دل کے مریضوں کے لیے بہترین سمجھا جاتا ہے۔سورج مکھی میں 30 فیصد مونو سیچوریٹڈ اومیگا 9 اور 59 فیصد پولی ان سیچوریٹڈ اومیگا 6 ہوتا ہے۔ اس کی نشوونما کی مدت مختصر ہے 100-120 دن اور سال میں دو بار اگائی جا سکتی ہے اور مختلف فصلوں کی گردشوں میں اچھی طرح سے فٹ ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے۔پنجاب کے مختلف اضلاع میں کاشتکار سورج مکھی کی کاشت کر رہے ہیں جن میں فیصل آباد، ڈیرہ غازی خان، راجن پور، بہاولپور، رحیم یار خان، ملتان، وہاڑی، بہاولنگر، مظفر گڑھ، لیہ، لودھراں، بھکر، میانوالی، سرگودھا، خوشاب، جھنگ، سیالکوٹ گوجرانوالہ اور لاہور شامل ہیں۔ویلتھ پاک سے بات کرتے ہوئے، گندم کی کاشت کو ترجیح دینے والے کسان بلال احمد نے کہا کہ وہ سورج مکھی اگانے کے لیے تیار ہیں لیکن جب فصل مارکیٹ میں آئے گی تو منفی عناصر کسانوں کا استحصال شروع کر دیں گے۔
"میرے ایک دوست سورج مکھی کی کاشت کرنے پر بھی غور کر رہے ہیں۔ کسان بھی زراعت کے ذریعے قومی معیشت کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں لیکن لوگ انہیں درمیانی آدمی کے استحصال اور قدرتی آفات سے نہیں بچا رہے ہیں ۔ایک مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سیلاب کی وجہ سے جن کسانوں کی فصلیں ضائع ہوئیں، وہ اپنے کاروبار کی بحالی کا انتظار کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں صرف زبانی طور پر تسلی دی جا رہی ہے۔اعجاز نے کہا کہ کسان خوردنی تیل کی ضروریات پوری کرنے میں پاکستان کی مدد کر سکتے ہیں لیکن سب سے پہلے حکومت کو ایک حکمت عملی مرتب کرنا ہو گی تاکہ انہیں ان کی محنت کا واپسی مل سکے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان سورج مکھی کا تیل برآمد کرکے انتہائی ضروری زرمبادلہ بھی حاصل کرسکتا ہے، کیونکہ کاشتکار طبقہ سورج مکھی کی کاشت کے ذریعے ملک کو خوردنی تیل میں خود کفیل بنانے کی غیر معمولی صلاحیت رکھتا ہے۔ایوب ایگریکلچرل ریسرچ انسٹی ٹیو ٹ کے ترجمان مبین احمد نے کہا کہ وہ کسانوں کو سورج مکھی کی کاشت کے لیے قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس سال پنجاب حکومت نے 2 لاکھ 10 ہزار ایکڑ پر سورج مکھی کی کاشت کا ہدف مقرر کیا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ پورے صوبے کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے جہاں حکومت کسانوں کو اس فصل کو اپنانے میں مدد کرے گی۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی