سندھ حکومت ماہی گیری کی برآمدات کو بڑھانے کے لیے کراچی کے علاقے ابراہیم حیدری میں منی فش ہاربر تیار کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔محکمہ لائیو سٹاک اینڈ فشریز نے اس منصوبے کی تجویز دی ہے۔کراچی فش ہیبرور کو ماہی گیری کی 500 کشتیوں کو سنبھالنے کے لیے تیار کیا گیا تھالیکن اب روزانہ تقریبا 2500 کشتیاں سمندر میں ماہی گیری کے لیے جاتی ہیں۔سیکرٹری فشریز ڈاکٹر حفیظ احمد سیال نے کہا کہ کراچی فش ہاربر پر موجودہ سہولیات اور انفراسٹرکچر ماہی گیری کی کشتیوں کی اتنی بڑی آبادی کو سنبھالنے کے لیے ناکافی ہے۔انہوں نے کہا کہ کراچی کی ساحلی پٹی میں ابراہیم حیدری کے علاقے میں منی فش ہاربر ماہی گیری کی کشتیوں کو سہولت فراہم کرے گا جس سے مقامی کھپت اور برآمدات کے لیے مزید مچھلیاں پکڑنے میں مدد ملے گی۔خوراک کے شعبے میں ماہی گیری کی برآمدات چاول کی برآمد کے بعد آتی ہیں اور ماہی گیری کی 90فیصدبرآمدات کراچی سے آتی ہیں اور زیادہ تر چین کو فراہم کی جاتی ہیں۔پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس کی رپورٹ کے مطابق، 30 جون 2023 کو ختم ہونے والے مالی سال کے دوران پاکستان کی مچھلی اور مچھلی کی مصنوعات کی برآمدات 15.2 فیصد اضافے کے ساتھ 496.3 ملین ڈالر کی ریکارڈ بلند ترین سطح پر پہنچ گئیں جو پچھلے سال کے 430.8 ملین ڈالر کے مقابلے میں تھیں۔سیال نے کہا کہ صوبے کی ساحلی پٹی میں ایک ہزار سے زائد سمندری آبی وسائل موجود ہیں جن سے ماہی گیری کی سرگرمیوں اور سمندری خوراک کی برآمدات کے امکانات میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت نے پہلے ہی کراچی فش ہاربر کی بحالی اور تزئین و آرائش کا کام شروع کر رکھا ہے۔
یہ ایک طویل مدتی اقدام ہے اور اس میں فائر فائٹنگ سسٹم، سیوریج نیٹ ورک سسٹم، زیر زمین پانی کے ٹینک اور پمپ روم، واٹر ٹاور، بیرونی برقی کام، سڑکوں اور پتھروں کی پچنگ، سی سی ٹی وی سسٹم، بانڈری وال اور تیرتے پونٹون کی بحالی شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ بڑی صلاحیت کے باوجود پاکستان میں اپنی پیداوار کے معیار اور تازگی کو برقرار رکھنے کے لیے مناسب نظام کا فقدان ہے۔ معیاری، محفوظ اور منجمد سمندری مصنوعات بین الاقوامی اور مقامی دونوں منڈیوں میں مزید مواقع فراہم کریں گی۔ تمام بین الاقوامی سطح پر مطلوبہ معیارات کو پورا کرنے کے لیے بندرگاہی شہر کراچی میں اس سال کے آخر تک ایک اپ گریڈڈ فش ہاربر مکمل ہونے کا امکان ہے۔ملک کی ماہی گیری کی برآمدات کو یورپی یونین کی جانب سے پابندی کا سامنا ہے۔ فشریز کے ڈائریکٹر جنرل ذوالفقار لاڑک نے کہا کہ پابندی سے ماہی گیری کی برآمدات کے شعبے کو بہت زیادہ نقصان پہنچا ہے۔انہوں نے کہا کہ نئی حکومت نے متعلقہ محکموں کو ہدایت کی ہے کہ وہ یورپی یونین کے ساتھ ایکشن پلان تیار کریں۔یورپی یونین نے کئی سال قبل ماہی گیری کی کشتیوں کی خراب حالت، کراچی فش ہاربر پر ناقص صورتحال، غیر معیاری جالوں کے استعمال اور فشپروسیسنگ یونٹس میں مبینہ طور پر بین الاقوامی معیار کی کمی کا پتہ لگانے کے بعد پاکستان سے ماہی گیری کی برآمدات پر پابندی عائد کی تھی۔لارک نے کہا کہ صوبائی حکومت یورپی یونین کے معیار کے مطابق انفراسٹرکچر اور سہولیات کو اپ گریڈ کرنے کے لیے مختلف منصوبوں پر عمل پیرا ہے۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی