پاکستان اکانومی واچ کے صدر ڈاکٹر مرتضیٰ مغل نے کہا ہے کہ سیاسی عدم استحکام امن و امان کی مخدوش صورتحال اور معاشی زوال سے چینی سرمایہ کار بھی پریشان ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ موجودہ حالات میں چینی بزنس مینوں کی جانب سے پاکستان میں مزید سرمایہ کاری کا کوئی امکان نہیں ہے۔سی پیک کے تحت توانائی اور انفراسٹرکچر منصوبوں میں کچھ سرمایہ کاری ہو رہی ہے مگر دیگر شعبوں میں چینی سرمایہ کاروں کو راغب کرنا ناممکن ہو رہا ہے۔ ڈاکٹر مرتضیٰ مغل نے یہاں جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا کہ پاکستان کی ایران اور افغانستان سے تھوڑی بہت تجارت ہے بھارت سے تجارت بند ہے جبکہ صرف ایک پڑوسی ملک چین سے تجارت جاری ہے اور چینی سرمایہ کار پاکستان میں انوسٹمنٹ بھی کرتے ہیں ۔
اگر انھیں سازگار ماحول فراہم کیا جاتا تو وہ چین سے ہزاروں میل دور ممالک میں صنعتیں لگانے کے بجائے پڑوسی ملک پاکستان کو ترجیح دیتے مگر ایسا نہیں ہو سکا جو افسوسناک ہے۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان میں کاروبار کرنے کے قوانین اور مجموعی کاروباری فضاء مسموم ہے جسکی وجہ سے غیرسرمایہ کار پاکستان کا رخ کرتے ہوئے کتراتے ہیں۔معاشی ماہرین زیادہ زور قرضے لینے، معاف کروانے یا انکی واپسی کی مدت میں توسیع پر لگاتے ہیں جبکہ پالیسیوں کو بہتر نہیں بنایا جا رہا ہے۔انھوں نے کہا کہ چالیس سال تک پالیسی سازوں کا خیال تھا کہ افغانستان میں دوست حکومت کے قیام سے پاکستان اس جانب سے محفوظ ہو جائے گا مگر یہ بھی خام خیالی نکلی اور اب اسی جانب سے پاکستان پر مسلسل حملے ہو رہے ہیں۔مفروضوں اور خواہشات پر مبنی پالیسیوں کے نتائج ایسے ہی نکلتے ہیں۔ طالبان حکومت نہ صرف بین الاقوامی برادری کی توقعات پر پورا اترنے میںناماک رہی ہے بلکہ یہ پاکستان کی توقعات پر بھی پورا نہیں اتر سکی ہے۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی