نیشنل بزنس گروپ پاکستان کے چیئرمین، پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولزفورم وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدراورسابق صوبائی وزیرمیاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ پاکستان میں جاری زرمبادلہ کا بحران سنگین تر ہوتا جا رہا ہے۔ اس بحران کی وجہ سے ملکی و غیر ملکی سرمایہ کار پریشان ہیں اور انکا اعتماد کم ہوتا جا رہا ہے کیونکہ ان کی ایل سی نہیں کھل رہیں اور پورٹ پر موجود مال زرمبادلہ نہ ملنے کی وجہ سے کلیئر نہیں ہو رہا اور انہیں لاکھوں روپے روزانہ کے ڈیمرج اور ڈیٹینشن چارجز کا سامنا ہے۔ آئی ایم ایف کا نواں جائزہ بھی تاخیر کا شکار ہے۔ اس صورتحال میں پاکستان جلد از جلد آئی ایم ایف، سعودی عرب اور چین سے قرضوں کا انتظام کرے تاکہ ملک کو مزید نقصان سے بچایا جا سکے۔ میاں زاہد حسین نے کاروباری برادری سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ کل ملا کر ہماری ساٹھ ارب ڈالر کی سالانہ آمدن ہے جبکہ 80 ارب ڈالر کی درآمدات ہیں اور اسی وجہ سے ملک کو قرضوں کے بغیر چلانا ناممکن ہے۔
خودکفالت کے حصول کے لیے ہمیں آمدن بڑھانا ہوگی اور درآمدات کو کم کرنا ہوگا۔ معاشی پالیسیوں کو عوامی فلاح کے لیے نئے سرے سے ترتیب دینا ہو گا۔ پاکستان میں پیداواری صلاحیت اور برآمدات تشویشناک حد تک کم ہیں جنھیں بڑھانے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہے۔ میاں زاہد حسین نے کہا کہ ملکی مسائل، آبادی اور قرضے مسلسل بڑھ رہے ہیں مگر معیشت ترقی کرنے کے بجائے گررہی ہے اور موجودہ نظام میں معیشت کا بہتر ہونا ایک خواب ہے۔ ہمارے معاشی نظام کا تمام تر دارومدار درآمدات پر ہے اس لیے جب بھی شرح نمو چار فیصد سے زیادہ ہو تو امپورٹ بل ناقابل برداشت ہو جاتا ہے جس کے نتیجہ میں ادائیگیاں مشکل ہو جاتی ہیں۔ اس مشکل وقت میں اگر دوست ممالک نے قرضے فراہم نہ کئے تو ملک دیوالیہ ہو سکتا ہے اور اگر قرضے فراہم کر دئیے گئے تو چند ماہ تک گزارا چل جائے گا جس کے بعد نئے قرضے لینا ہونگے۔
اس صورتحال کو بہتر بنانے کے لئے ہمیں اپنے ناکام اقتصادی ماڈل میں بنیادی تبدیلیاں لانا ہونگی، پٹرولیم کے امپورٹ بل میں کمی لانے کے لیے سولر اور ونڈ انرجی پر فوری طور پر منتقل ہونا ہوگا۔ 17 ارب ڈالر یا چار ہزارارب روپے ہر سال بیرون ملک کسانوں میں بانٹنے کی بجائے اپنے ملک کی ذراعت کو بہتر کرنا ہوگا تاکہ ملک زراعت میں خود کفیل ہو اور زرعی امپورٹ بل کا خاتمہ ہو سکے اور اشرافیہ کے بجائے عوام کی فلاح کو ممکن بنایا جا سکے۔ اسکے علاوہ ایسی پالیسیاں بنانا ہونگی کہ سرمایہ کارغیر پیداواری شعبوں کے بجائے پیداواری شعبوں میں دلچسپی لیں جس سے پیداوار اور برآمدات میں اضافہ ہو اور عوام کو روزگار ملے۔ پیداواری شعبہ کی پیداواری لاگت کو عالمی منڈی میں مقابلے کے قابل بنانا ہوگا تاکہ وہ اپنی ساری توجہ مقامی منڈی پر رکھنے کے بجائے برآمدات بڑھانے کے قابل ہو سکیں۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی