امریکی ڈالر کے مقابلے مقامی کرنسی کی قدر میں کمی نے پاکستان میں ٹیلی کام سیکٹر کے آپریٹرز کی پریشانیوں میں اضافہ کر دیا ہے کیونکہ انہیں زیادہ تر سامان درآمد کرنا پڑتا ہے۔ سیلولر سروس فراہم کرنے والی کمپنی جاز کے چیف بزنس آفیسر آصف عزیز نے ویلتھ پاک سے بات کرتے ہوئے کہا کہ روپے کی قدر میں کمی نے آپریٹرز کی اپنی صلاحیتوں اور آپریشنز کو بڑھانے کے امکانات کو کم کر دیا ہے۔انہوں نے کہا کہ معاشی سست روی کی وجہ سے 2022 کے مقابلے 2023 میں سیلولر موبائل صارفین اور سیلولر کثافت میں کمی واقع ہوئی ہے۔پاکستان میں موبائل آپریٹرز کی طرف سے فراہم کردہ سروس کا معیار عالمی معیار کے مطابق نہیں ہے۔ آپریٹرز کو نیٹ ورک اور صلاحیت کو بڑھانے میں سرمایہ کاری کرنے کے ساتھ ساتھ بدلتے ہوئے ٹیکنالوجی کے منظر نامے سے ہم آہنگ رہنے کے لیے مسلسل سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے۔ویلتھ پاک سے بات کرتے ہوئے یو فون میں فرنچائز سپورٹ کے سربراہ طارق بیگ نے کہا کہ امریکی ڈالر کے مقابلے روپے کی مسلسل گراوٹ نے پاکستان میں کاروبار کرنے کی لاگت کو بڑھا دیا ہے جس سے ٹیلی کام کمپنیوں کے لیے جدید کاری میں سرمایہ کاری کرنا مشکل ہو گیا ہے۔
ٹیلی کام سیکٹر نے مالی سال 23 میں محصولات کے لحاظ سے 850 بلین روپے پیدا کیے جو کہ پچھلے سال کے مقابلے میں 17 فیصد اضافہ کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ اضافہ روپے کے لحاظ سے تھا جب کہ ڈالر کے لحاظ سے، آمدنی 2018 میں 882 ملین ڈالر سے کم ہو کر 2023 میں 762 ملین ڈالر رہ گئی۔ٹیلی کام سیکٹر میں 2018 سے 2022 کے دوران 6.2 بلین ڈالر کی بڑی سرمایہ کاری دیکھنے میں آئی۔فنانس بل 2021 میں ٹیلی کام سیکٹر کو ایک صنعت قرار دیا گیا تھا لیکن اس کے باوجود اس شعبے کو وہ مراعات نہیں مل رہیں جو دیگر صنعتی شعبے حاصل کر رہے ہیں۔ ٹیلی کام سیکٹر پاکستان میں سب سے زیادہ ٹیکس والے شعبوں میں سے ایک ہے۔ لائسنس حاصل کرنے پر اٹھنے والی لاگت سیلولر آپریٹرز کو ادا کرنے والی واحد سب سے بڑی قیمت اگرچہ جاز نے 2019-23 کی مدت میں مجموعی طور پر سب سے زیادہ سبسکرائبر بیس کا لطف اٹھایالیکن اس نے اپنے سبسکرائبر شیئر میں بھی 38.8فیصدسے 37فیصدتک کمی دیکھی ہے۔طارق بیگ نے کہا کہ پاکستانی روپے کی قدر میں مسلسل کمی ٹیلی کام سیکٹر کو قابل بھروسہ انٹرنیٹ خدمات فراہم کرنے سے روک رہی ہے کیونکہ لائسنس فیس اور قسطوں پر سود امریکی ڈالر سے لگایا گیا تھا۔ پالیسی سازوں کو پاکستان میں ڈیجیٹلائزیشن کو فروغ دینے کے لیے ان خدشات کو دور کرنا چاہیے۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی