کیش لیس معیشت میں تیزی سے منتقلی کا حکومتی منصوبہ مرکزی بینک کی منی سپلائی اور شرح سود کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت کو بڑھا دے گا۔یہ بات اسٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی کمیٹی کے سابق ممبر وسیم شاہد ملک نے ویلتھ پاک سے گفتگو کرتے ہوئے کہی،انہوں نے کہا کہ ماضی میں مانیٹری پالیسی کے نتائج اسٹیٹ بینک کی طرف سے کی گئی پالیسی تبدیلیوں کے لیے غیر حساس رہے۔انہوں نے وضاحت کی کہ کیش لیس معیشت میںزیادہ تر لین دین الیکٹرانک طریقے سے کیے جاتے ہیںجس سے پیسے کے بہا وکی واضح ڈیجیٹل ٹریل ہوتی ہے۔ اس سے اسٹیٹ بینک کو رقم کی سپلائی اور اس کی رفتار کے بارے میں زیادہ درست اور حقیقی وقت کا اندازہ ہو سکے گا،بہتر ڈیٹا کے ساتھ بینک اپنی مانیٹری پالیسیوں کو ٹھیک کرنے کے قابل ہو جائے گا۔اس سلسلے میں وسیم نے پاکستان میں مہنگائی کو کم کرنے میں شرح سود کی نااہلی کی مثال دی۔ستمبر 2021 سے اپریل 2023 تک اسٹیٹ بینک نے پالیسی ریٹ میں 1,400 بیسس پوائنٹس کا اضافہ کیا جو اسے 22 فیصد کی سطح پر لے آیا،اسی طرح مالی سال 2023 کے جولائی سے اپریل کے دوران، مجموعی پالیسی ریٹ میں 725 بیسس پوائنٹس کا اضافہ ہوا۔ تاہم اسی مدت کے دوران افراط زر میں کوئی کمی کا رجحان نہیں دکھایا گیا۔ انہوں نے اس بے اثری کی وجہ کیش لیس معیشت کی عدم موجودگی کو قرار دیا۔
درحقیقت پاکستان کی مانیٹری پالیسی کی طویل عرصے سے غیر موثریت بنیادی طور پر گردش میں موجود رقم کے بارے میں بہتر ڈیٹا کی عدم دستیابی کا نتیجہ ہے۔،یکے بعد دیگرے حکومتوں نے شرح سود کی سطح کو تبدیل کرکے مہنگائی کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی۔ تاہم بینکنگ سسٹم کے دائرہ کار سے باہر لین دین کی سرگرمیوں کا بنیادی مسئلہ اپنی جگہ پر برقرار ہے ۔انہوں نے وضاحت کی کہ پاکستان میں کیش لیس لین دین ایک ڈیجیٹل ریکارڈ چھوڑے گا جس سے کاروباروں اور افراد کے لیے غیر رپورٹ شدہ اقتصادی سرگرمیوں میں مشغول ہونا زیادہ مشکل ہو جائے گا۔ غیر رسمی معیشت میں اس کمی سے اسٹیٹ بینک کو رقم کی فراہمی پر مزید کنٹرول حاصل کرنے میں مدد ملے گی،انہوں نے کہا کہ پاکستان میں آن لائن اسٹورز جیسے پاک ویلز،او ایل اکس درازاور زمین ڈاٹ کام کا بڑھنا گردش میں موجود نقدی پر حقیقی وقت کا ڈیٹا حاصل کرنے کے حوالے سے ایک مثبت علامت ہے،کیش لیس معیشت کو فروغ دینے کے لیے انہوں نے حکومت کو ای بینکنگ اور مالیاتی خواندگی کو فروغ دینے اور سائبر سیکیورٹی کے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کا مشورہ دیا۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی