جامعہ زرعیہ فیصل آباد کے زرعی ماہرین نے کہا ہے کہ پنجاب میں تقریباً24لاکھ ایکڑ رقبہ پر چنے کی کاشت ہوتی ہے جس میں سے 92فیصد رقبہ بارانی علاقوں پر مشتمل ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں چنے کی زیادہ تر دیسی اقسام کاشت کی جاتی ہیں جبکہ ہمارے ملک میں کابلی چنے کی کھپت میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے لہٰذا ملک میں کابلی چنے کی کمی کو پورا کرنے کیلئے ایران، آسٹریلیا اور ترکیہ سے کابلی چنے کی د رآمد کی جاتی ہے تاہم کابلی چنے کی ستمبر کاشتہ کماد اور دھان کے بعد آبپاش علاقوں میں کاشت کو فروغ دیکر اس کمی کو پورا کیا جاسکتا ہے۔انہوں نے کہاکہ غیر ملکی درآمد پر انحصار ختم کرنے کیلئے کاشتکاروں کو کابلی چنے کا زیر کاشت رقبہ بڑھانے کی ہدایت کی گئی ہے اور اس ضمن میں ماہرین زراعت اور محکمہ زراعت کو بھی خصوصی ٹاسک سونپاگیا ہے۔انہوں نے بتایاکہ ملکی ضروریات میں اضافہ کے باعث چنے اور مسور کے زیر کاشت رقبہ کو بڑھانے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ ان فصلوں کی کاشت بڑھانے سے ملکی ضروریات پوری کرنے کے ساتھ ساتھ دالوں کی درآمد کو کم کرکے زرمبادلہ بچایا جاسکتا ہے۔انہوں نے بتایا کہ پھلی دار اجناس ہونے کی وجہ سے چنے اور مسور کی فصلیں ہوا سے نائٹروجن حاصل کرکے زمین میں شامل کرتی ہیں جس سے زمین کی ذرخیزی بحال رہتی ہے۔انہوں نے بتایاکہ بارانی علاقوں میں چنے کی زیادہ تر دیسی اقسام کاشت کی جاتی ہیں لیکن کابلی چنے کی مانگ بڑھ رہی ہے جسے پورا کرنے کیلئے مختلف ممالک سے کابلی چنا درآمد کیا جارہا ہے لہٰذااس کی درآمد کو کم کرنے کیلئے کابلی چنے کے زیر کاشت رقبہ کو بڑھانے کے ساتھ ساتھ جدید پیداواری ٹیکنالوجی کو اپنانے کی ضرورت ہے۔انہوں نے بتایا کہ گزشتہ چند سالوں کی نسبت مسور کی فی ایکڑ پیداو ار میں کمی واقع ہوئی ہے جس کی وجہ زائد بارشیں،جڑی بوٹیوں کی بہتات اور منظور شدہ اقسام اور جدید پیداواری ٹیکنالوجی کو نہ اپناناہے۔انہوں نے کاشتکاروں کو ہدایت کی کہ چنے اور مسور کی فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ کے لیے کھادوں کے مناسب استعمال،کیڑوں اور بیماریوں کے انسداد کے لیے جاری کردہ سفارشات پر عملدرآمد کیاجائے تاکہ پیداوار میں اضافیکو یقینی بنایاجاسکے۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی