جنیوا (شِںہوا) اقوام متحدہ کی کانفرنس برائے تجارت و ترقی (یو این سی ٹی اے ڈی) کے ایک ماہر نے کہا ہے کہ بحیرہ احمر، بحیرہ اسود اور نہر پانامہ کے سمندری راستوں میں رکاوٹیں عالمی سمندری تجارت کے متاثر ہونے کی وجوہات میں سے ایک ہیں۔
اقوام متحدہ کی کانفرنس برائے تجارت و ترقی میں ٹریڈ لاجسٹکس برانچ کے سربراہ جان ہوف مین نے شِنہوا سے ایک انٹرویو میں بحیرہ احمر میں بحری جہازوں پر بڑھتے حملے، بحیرہ اسود میں یوکرین بحران سے پیدا شدہ رکاوٹیں اور نہر پانامہ کو متاثر کرنے والے قحط کے چیلنجز سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
جان ہوف مین نے کہا کہ ان بحرانوں کے سبب ان سمندری راستوں سے گزرنے والے بحری جہازوں کی تعداد میں نمایاں کمی ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ نہر سوئز یورپ کو ایشیا سے ملانے والا سب سے چھوٹا راستہ ہے جہاں سے2023 میں عالمی کنٹینر تجارت پر مشتمل تقریباً 22 فیصد بحری جہاز گزرے اور آج 20 فیصد سے زائد بحری جہاں یہاں سے نہیں گزررہے۔
جان ہوف مین نے کہا کہ نہرسوئز مصر کے لیے غیرملکی زرمبادلہ کا ایک اہم ذریعہ ہے۔
ہوف مین نے صورتحال کی سنگینی بتاتے ہوئے کہا کہ بحیرہ احمر میں بحران تعمیرات، گاڑیوں، کیمیکلز اور مشینری جیسی صنعتوں کی سپلائی چینز کو متاثر کرسکتا ہے جو ایشیا بحر الکاہل خطے کی درآمد پر انحصار کرتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ توانائی کی فراہمی، غذائی تحفظ، اور ماحولیاتی استحکام متاثر ہوسکتا ہے جبکہ پہلے ہی توانائی اور خوراک کی قیمتیں بہت زیادہ ہیں جس سے افراط زر کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔