• Dublin, United States
  • |
  • Dec, 23rd, 24

شِنہوا پاکستان سروس

سیاہ سونا عراقیوں کی جدوجہد آزادی کی صدیوں طویل نشیب و فراز کا گواہتازترین

July 31, 2024

بغداد (شِنہوا) عراق میں81 سالہ حسین علی سعید  نے اپنی زندگی عراق کے شمالی شہر کرکوک میں گزاری ہے جو تیل کے وافر ذخائر کے سبب شہرت رکھتا ہے۔

تیل کے شعبے سے  وابستہ اس ریٹائرڈ محنت کش نے دیکھا ہے کہ اس کا آبائی علاقہ سے تیل کے کنوؤں کے اوپر آگ کے شعلے بھڑکتے نظر آتے تھے تیل کی پائپ لائنیں دور دور بلکہ کئی تو بہت ہی دور تک پھیلی ہوئی ہیں۔

حسین نے ایک آہ بھرتے ہوئے کہا کہ تیل کی وجہ سے پوری دنیا کی نگاہیں عراق پر ہیں۔ میری پوری زندگی تیل سے وابستہ رہی ہے میرے ملک کی تقدیر بھی اسی سے جڑی ہے۔

پہلی جنگ عظیم کے بعد انگریزوں نے شکست خوردہ سلطنت عثمانیہ سے حاصل کردہ بغداد ، بصرہ اور موصل کے خطوں کو عراق کے نام سے نئی قوم میں ضم کردیا تھا جس پر انہوں نے ایک اختیار کے تحت حکمرانی کی۔

اگست 1921 ء میں برطانیہ کے مسلط کردہ شاہ فیصل اول عجلت میں بغداد میں تخت نشین ہوئے  اوراپنے قومی ترانے کے بغیر ان کی تاج پوشی کی تقریب برطانوی قومی ترانے "گاڈ سیو دی کنگ" کے ساتھ منعقد کی گئی تھی۔

برطانوی ، ڈچ اور دیگر مغربی تیل کمپنیوں کی ایک مشترکہ ٹیم نے 1927 میں کرکوک کی بابا قرقر آئل فیلڈ میں تیل کی تلاش شروع کی۔

حسین نے کہاکہ جب انگریز آئے تو کرکوک واقعی سیاہ سونا کا شہر تھا گویا ماچس کی ایک تیلی سے ہوا میں دھواں بھڑک اٹھتا تھا۔

نوآبادیات کا لالچ اس وقت واضح ہو گیا جب انہوں نے عراق کو رائلٹی کی مد میں فی ٹن سونے کے 4 شلینگ دیئے جو اس وقت کی تیل کی قیمت کے 12.5 فیصد کے مساوی تھے۔

تیل پر قبضہ کرنے کے لئے مغربی باشندوں نے کرکوک سے بحیرہ روم تک تیل کی پائپ لائن بچھائی جو اس وقت دنیا کا طویل ترین پائپ لائن منصوبہ تھا اور یہ یورپ کو سالانہ 40 لاکھ ٹن سے زائد تیل کی ترسیل کی صلاحیت رکھتا تھا۔

فائل فوٹو، عراق، فلوجہ میں ایک تباہ شدہ عمارت دیکھی جاسکتی ہے۔ (شِنہوا)

انہوں نے عراق میں تیل صاف کرنے کا کوئی تجارتی کارخانہ نہیں لگایا،  تیل پر مبنی مقامی صنعتوں کو ترقی نہیں دی اور نہ اس سے متعلق کسی ٹیکنالوجی کا اشتراک کیا جس سے نتیجہ یہ نکلا کہ تیل کے وسیع ذخائر کے باوجود عراق کو پیٹرولیم مصنوعات درآمد کرنا پڑتی تھی۔

حسین نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عراق سونا لے جانے والے اس اونٹ کی مانند تھا جسے کھانے میں صرف کانٹے ملتے تھے۔ دولت کا رخ مغرب کی سمت تھا۔ برطانوی، فرانسیسی، ڈچ اور امریکی سبھی اس میں حصہ دار تھے لیکن عراقیوں کو کچھ نہ ملا۔

اس سب کے باوجود غیر مطمئن مغربی قوتوں نے نت نئے قوانین وضع کئے۔ 3 بڑی امریکی ، برطانوی اور ڈچ تیل کمپنیوں کا 1928 میں ایک خفیہ اجلاس ہوا جس میں عالمی تیل مارکیٹ کو کنٹرول کرنے کے لئے اچناکیری معاہدے کے ساتھ ایک کارٹیل تشکیل دیا گیا۔ 1930 کی دہائی میں چار مزید مغربی تیل کمپنیاں اس میں شامل ہوگئیں جس سے آئل کارٹل سیون سسٹرز کا قیام عمل میں آیا۔

ان بڑے اداروں نے تیل کی صنعت پر اجارہ داری قائم کرکے پیداوار، نقل و حمل ، قیمتوں اور فروخت کو کنٹرول کیا۔ 1913 اور 1947 کے درمیان مغربی تیل کمپنیوں نے عراق سمیت مشرق وسطیٰ کے تیل پیدا کرنے والے ممالک سے 3.7 ارب امریکی ڈالر سے زیادہ کمائے جبکہ رائلٹی کی مد میں صرف 51 کروڑ ڈالر ادا کئے۔

حسین نے کہاکہ سیاہ سونے سے مغرب میں سنہرا دور آیا لیکن بدلے میں عراق کو سیاہ ڈراؤنا خواب ملا ۔ انہوں نے کہا کہ میں اکثر سوچتا ہوں کہ اگر تیل نہ ہوتا تو یہ ہمارے حق میں بہتر ہوتا۔