اسلام آباد (شِنہوا) پاکستان میں شہد کی پیداوار کے وسیع امکانات موجود ہیں تاہم متعدد عوامل کی وجہ سے مقامی شہد کی مکھیاں پالنے والوں کو مشکلات کا سامنا ہے جن پر چینی طرز کی شہد کی مکھیاں پال کر قابو پایا جاسکتا ہے۔
چین۔پاکستان ایپی کلچر فورم سے خطاب میں پاکستانی اور چینی ماہرین نے کہا کہ پاکستان اور چین کے درمیان شہد کی پیداوار کے شعبے میں تعاون شہد کی پیداوار میں اضافے کا ایک راستہ ہے۔
وزارت منصوبہ بندی، ترقی و خصوصی اقدامات میں تحفظ خوراک اور موسمیاتی تبدیلی کی رکن نادیہ رحمان نے ویبینار میں بتایا کہ اس طرح کے تعاون سے معلومات کے تبادلے، تحقیقی تعاون اور ٹیکنالوجی کی منتقلی ہوگی جس سے ملک میں شہد کی پیداوار بڑھے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں 3 لاکھ 90 ہزار افراد شہد کی مکھیاں پالتے اور سالانہ 4 ہزار ٹن سے زائد شہد پیدا کرتے ہیں۔
اگر وہ جدید ٹیکنالوجی کو اپنائیں تو شہد کی پیداوار سالانہ 70 ہزار ٹن تک بڑھ سکتی ہے اور تقریباً 87 ہزار سبز ملازمتیں پیدا ہوسکتی ہیں۔
تقریب سے خطاب میں پیر مہر علی شاہ زرعی یونیورسٹی راولپنڈی کے وائس چانسلر محمد نعیم نے کہا کہ پاکستان کے دیہی علاقوں سے وابستہ بہت سے لوگ شہد کی مکھیاں پالنے سے وابستہ ہیں جو ایک نفع بخش کاروبار اور ذریعہ معاش ہے۔
انہوں نے کہا کہ فی کالونی سالانہ پیداوار 30 سے 35 کلوگرام تھی تاہم موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے سبب یہ گھٹ کر 10 سے 12 کلوگرام رہ گئی ہے جس سے شہد کی مکھیاں پالنے والوں کے لئے کاروبار جاری رکھنا ایک سنگین مسئلہ بنا ہوا ہے۔
نعیم نے مزید کہا کہ پاکستانی مگس بان کو ان مشکلات پر قابو پانے میں مدد کے لئے یونیورسٹی چینی ٹیکنالوجی متعارف کر واتے ہوئے نہ صرف پیداوار بڑھانے بلکہ پیسے کمانے کے متبادل طریقوں کی تلاش میں بھی معاونت کررہی ہے۔
نعیم نے کہا کہ اب پاکستان کے لیے شہد کی مکھیاں پالنے اور شہد کی پروسیسنگ ٹیکنالوجی پر ایک تربیتی کورس منعقد کیا گیا جس میں مختلف جامعات ، تحقیقی اداروں، شہد کی مکھیاں پالنے والی تنظیموں ، تاجروں اور شہد کی مکھیاں پالنے والوں کے 39 شرکا کو چینی پروفیسرز نے مگس بانی کے جدید طریقوں سے آگاہ کیا۔