ٹوکیو (شِںہوا) جاپانی اخبار آساہی شم بون کی ایک رپورٹ کے مطابق نوجوان جاپانی اسکالرز زیادہ امید افزا مواقع کی تلاش میں چینی جامعات میں تحقیق کا انتخاب کررہے ہیں۔
روزنامہ نے موٹویوکی ہٹوری کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ وہ ایک ہونہار نوجوان اسکالر ہیں جنہوں نے 7 برس قبل شنگھائی کی فودان یونیورسٹی میں پروفیسرشپ کے لیے جاپان چھوڑ دیا تھا۔
ہٹوری اب 40 برس کے ہوچکے ہیں وہ اسٹرکچر اور فنکشن آف ممبرنس ٹرانسپورٹرز میں مہارت رکھتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ وہ 7 سال قبل جامعہ سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد اپنی لیبارٹری شروع کرنے کا ارادہ رکھتے تھے تاہم عام طور پر جاپان میں اس عمل میں 10 سال لگتے ہیں اس لئے انہوں نے چین منتقل ہونے کا فیصلہ کیا۔
اخباری رپورٹ کے مطابق جاپان فنڈنگ کا نظام استعمال کررہا ہے جس کے بارے ناقدین کی رائے ہے کہ نوجوان محققین دور ہورہے ہیں۔ چین کے تیزی سے بدلتے ہو ئے تعلیمی منظر نامے نے ہٹوری جیسے اسکالرز کے لیے بیرون ملک جانا آسان کردیا ہے۔
ہٹوری نے کہا کہ امریکہ میں تعلیم حاصل کرنے والے 30 اور 40 سال کی عمروں کے چینی سائنسدان کام کرنے اور سائنسی مضامین شائع کرنے کے لئے وطن واپس آنا شروع ہوچکے ہیں۔
اس کے علاوہ باصلاحیت نوجوانوں کی تعداد میں اضافے کے سبب چین کو اب بڑے ناموں یا پھر مہنگے پروگراموں پر انحصار کرنے کی ضرورت نہیں رہی ہے۔