نیروبی(شِنہوا)2022 کےآخرمیں صحرائی افریقہ میں کم از کم 18 لاکھ 50 ہزار بچےماحولیاتی آفات کے باعث اپنے ملکوں میں بے گھر ہو گئے جبکہ یہ تعداد گزشتہ سال میں تقریباً دوگنی ہو گئی ہے۔
لندن میں قائم ایک خیراتی ادارے سیو دی چلڈرن کے مطابق ان میں سے کچھ بچے متعدد بار بے گھر ہوئے جبکہ دیگر صرف ایک مرتبہ بے گھر ہوئےتاہم سال کے آخر میں تمام بچےبے گھر ہو کر خاندان کے ساتھ کیمپوں یا دیگر عارضی پناہ گاہوں میں رہنے پرمجبور ہو گئے۔
سیو دی چلڈرن کی ایسٹ اینڈ سدرن افریقہ ریجنل آفس کی ایڈووکیسی، رابطوں، مہمات اور میڈیا کے شعبوں کی سربراہ کجالا شاکونے کینیا کے دارالحکومت نیروبی میں جاری بیان میں کہا کہ جب بچے اپنے گھر کھو دیتے ہیں تو وہ تقریباً سب کچھ کھو دیتے ہیں جس میں صحت کی دیکھ بھال، تعلیم، خوراک اور حفاظت تک ان کی رسائی بھی شامل ہے۔
کینیا کے صدر ولیم روٹو (درمیان میں آگے ) اور دیگر حکام نیروبی میں افریقہ کلائمیٹ سمٹ 2023 کے پہلے دن کے دوران تصویر بنوا رہے ہیں ۔(شِنہوا)
شاکو نے کہا کہ وہ امید کرتی ہیں کہ نیروبی میں جاری افریقہ کلائمیٹ سمٹ میں شرکت کرنے والے رہنما اس بات کو تسلیم کریں گے کہ موسمیاتی بحران بچوں کی زندگیوں اور بچوں کی ضروریات اور حقوق پر تباہ کن اثرات مرتب کر رہا ہے۔
خیراتی ادارے نے کہا کہ صومالیہ میں بارش کے پانچ ناکام موسموں سے تقریباً 66 لاکھ افراد شدید قحط کا شکار ہیں جو ملک کی آبادی کا 39 فیصد حصہ ہیں۔