پراگ(شِنہوا)جمہوریہ چیک کے وزیر اعظم پیٹر فیالا نے کہا ہے کہ حکومت نے پراگ کی ایک یونیورسٹی میں ایک 24 سالہ طالب علم کی جانب سے فائرنگ اور بعد ازاں ممکنہ خودکشی کے المناک واقعے پر 23 دسمبر کو قومی یوم سوگ کے طور پر منانے کا اعلان کیا ہے جس میں 14 افراد ہلاک اور 25 زخمی ہو گئے۔
گزشتہ روز چارلس یونیورسٹی کی آرٹس فیکلٹی میں فائرنگ کے متاثرین کی یاد میں ریاستی جھنڈوں سرنگوں کیا گیا اور شہریوں سے ایک منٹ کی خاموشی اختیار کرنے کی اپیل کی گئی۔
بعد ازاں گزشتہ شام کو ایک پریس بریفنگ میں بات کرتے ہوئے چیک پولیس کے صدر مارٹن وونڈراسیک نے بتایا کہ فائرنگ کے نتیجے میں 14 افراد ہلاک اور 25 زخمی ہوئے، جبکہ اس سے قبل 15 افراد ہلاک اور 24 زخمی ہونے کی اطلاع تھی ۔انہوں نے اس نے تبدیلی کی وضاحت نہیں کی جبکہ حکام کے مطابق ہلاکتوں کی تعداد بڑھنے کا خدشہ ہے۔
یہ سانحہ چارلس یونیورسٹی کے فلسفہ ڈیپارٹمنٹ کی عمارت میں سامنے آیا، جہاں حملہ آور ایک طالب علم تھا جس کی وونڈراسیک نے تصدیق کی تاہم مجرم کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی۔
چیک نیوز ایجنسی (سی کے ٹی) کے مطابق مقامی پولیس کو اطلاع ملی کہ وسطی بوہیمیا ریجن میں ہوسٹون سے ایک نوجوان پراگ روانہ ہونے والا ہے اور اس نے کہا کہ وہ اپنی جان لینا چاہتا ہے۔ تقریباً 25 منٹ بعد، نوجوان کے والد ہوسٹون میں مردہ پائے گئے۔
وونڈراسیک نے کہا کہ پولیس کا خیال ہے کہ مسلح نوجوان نے اپنے والد کو قتل کیا اور ایسے اشارے ملے ہیں کہ وہ اپنی جان لینے کا ارادہ رکھتا تھا تاہم اس کی مزید تفصیلات نہیں بتائی گئیں۔
رپورٹ کے مطابق پولیس نے شوٹر کو ایک بہترین طالب علم قرار دیا جس کا کوئی مجرمانہ ریکارڈ نہیں تھا اور یہ بھی بتایا گیا کہ شوٹر پراگ میں سیلٹنا اسٹریٹ پر واقع فنون کی فیکلٹی کی عمارت میں لیکچر دینے والا تھا جس پر انہوں نے عمارت کو خالی کرا دیا تاہم فائرنگ جان پالچ اسکوائر پر ہوئی۔