• Dublin, United States
  • |
  • Jan, 17th, 25

شِنہوا پاکستان سروس

یورپی یونین کا تحفظ پسندی پر مبنی "خطرہ کم کرنے" کا چین مخالف بیانیہ جرمن کمپنیوں پر اثرا انداز نہیں ہورہا، چیئرمین مرسڈیز بینز گروپتازترین

February 29, 2024

بیجنگ(شِنہوا)مرسڈیز بینز گروپ کے بورڈ آف مینجمنٹ کے چیئرمین اولا کیلینیئس نے کہا  ہے کہ یورپی یونین کی جانب سے چین کے خلاف  تحفظ پسندی کےاقدامات میں اضافے کے یورپ جیسی معیشتوں پر نقصان دہ اثرات مرتب ہونگے۔

انہوں نے یہ بات کمپنی کے سہ ماہی نتائج کے اجراء کے موقع پرکہی۔

اولا کیلینیئس کا یہ بیان جرمن اور یورپی کاروباری اداروں کی ایک بڑی تعداد کے بیانات سے مطابقت رکھتا ہے،جرمن حکومت، تھنک ٹینکس اور چیمبر آف کامرس کی طرف سے حال ہی میں جاری کردہ سلسلہ وار رپورٹوں اور اعداد و شمارکا جائزہ لیا جا ئے تو پتہ چلتا ہے کہ  "خطرے کو کم کرنے" کے بیانیے سے چین-جرمنی سرمایہ کاری تعاون  متاثر نہیں ہوا ہے۔ جبکہ امریکہ اور بعض دیگر مغربی ممالک میں کچھ سیاستدان چین کے معاملے میں "ڈی رسکنگ" کا دعویٰ کر رہے ہیں تاہم حقیقیت میں جرمن کمپنیاں چین میں مسلسل سرمایہ کاری میں اضافہ کررہی ہیں اور چینی مارکیٹ میں داخل ہورہی ہیں۔

جرمن اکنامک انسٹیٹیوٹ نے حال ہی میں جرمن مرکزی بینک کے اعداد و شمار پر مبنی ایک رپورٹ میں جاری کی جس میں کہا گیا ہے کہ 2023 میں جرمنی سے چین میں براہ راست سرمایہ کاری گذشتہ برس کے مقابلے میں 11.9 ارب یورو (12.9 ارب امریکی ڈالر) کی ریکارڈ بلند ترین سطح پر پہنچ گئی جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 4.3 فیصد زیادہ ہے۔

رپورٹ کے مطابق گزشتہ تین سالوں میں چین میں جرمن کمپنیوں کی  جانب سے کی جانیوالی سرمایہ کاری کا حجم اندازاً  2015 سے 2020 تک کےدرمیانی عرصے  کے  برابر ہے۔ مزید برآں، 2023 میں جرمنی کی چین میں سرمایہ کاری اس کی مجموعی بیرون ملک سرمایہ کاری کا 10.3 فیصد رہی ہے جو 2014 کے بعد سے بلند ترین سطح  ہے۔

فائل فوٹو،چین کے جنوبی صوبہ ہائی نان کے شہر ہائیکو میں تیسری چائنہ بین الاقوامی صارفین مصنوعات کی نمائش (سی آئی سی پی ای) میں جرمن ساختہ ہوبی تفریحی گاڑی(ہوبی آر وی) کا ایک منظر۔(شِنہوا)

جرمنی کے وفاقی شماریاتی دفتر کی جانب سےفروری کے وسط میں جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق سال 2023 میں جرمنی اور چین کے درمیان تجارتی حجم 253.1 ارب یورو (274.2 ارب ڈالر) رہا ہے جبکہ  چین مسلسل آٹھویں سال جرمنی کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار بن گیا ہے۔

جرمن اکنامک انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ کے مصنف جورگن میتھیس کے خیال میں اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ بڑی جرمن کمپنیاں اب بھی چین کو ایک ترقی کرتی ہوئی مارکیٹ کے طور پر دیکھتی ہیں اور بڑھتے ہوئے عالمی تجارتی تناؤ سے بچنے کےلیے چین میں اپنے کاروبار کو بڑھانے کا ارادہ رکھتی ہیں۔