پنوم پن(شِنہوا) کمبوڈیا کے ایک ماہر نے کہا ہے کہ آٹھ سال قبل نام نہاد ثالثی ٹریبونل کی جانب سے بحیرہ جنوبی چین کے معاملے پر یکطرفہ ثالثی سے اس تنازعے کا کوئی حل سامنے نہیں آیا، بلکہ اس سے چین اور فلپائن کے درمیان مزید عدم اعتماد پیدا ہوا ہے۔
کمبوڈیا کی رائل اکیڈمی کے پالیسی تجزیہ کار سیون سام نے شِنہوا کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ فلپائن کی طرف سے یکطرفہ طور پر شروع کی گئی جنوبی بحیرہ چین کی ثالثی دونوں ممالک کے درمیان اس مسئلے کو حل کرنے میں مکمل طور پر غیرموثرہے۔
انہوں نے کہا کہ تاریخی حقائق، بین الاقوامی قانون اور بحیرہ جنوبی چین میں فریقین کے طرزعمل سے متعلق اعلامیہ کی رو سے بحیرہ جنوبی چین میں امن و استحکام برقرار رکھنے کے لیے دوطرفہ مذاکرات اس مسئلے کے حل کے لیے سب سے مؤثرطریقہ ہیں۔
سیون سام نے کہا کہ متعلقہ ممالک کو براہ راست دوستانہ مذاکرات کرنے چاہئیں اور بیرونی ممالک کو کبھی بھی اپنی بات چیت اور رابطوں میں مداخلت کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔