شی آن (شِنہوا) بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) گزشتہ چند برسوں میں بین الاقوامی تعاون میں سب سے زیادہ زیر بحث رہا ہے۔ اگرچہ بہت سے لوگ جانتے ہیں کہ یہ چین کی طرف سے تجویز کردہ تھا تاہم بہت کم لوگوں کو یہ علم ہوگا کہ یہ تصور سب سے پہلے وسط ایشیا میں پیش کیا گیا تھا۔
چینی صدر شی جن پھنگ نے ستمبر 2013 میں دورہ قازقستان میں جامعہ نذربایوف میں دور رس اہمیت کی تقریر کی تھی۔
چینی صدر اپنے خطاب کے ذریعے سننے والوں کو 2 ہزار 100 برس پیچھے لے گئے تھے جب ایک چینی سفیر کو امن و دوستی مشن پر وسط ایشیا بھیجا گیا اور ایک شاہراہ ریشم کی بنیاد رکھی گئی جس سے چینی ریشم، چائے اور چینی مٹی کے برتن دنیا کے دیگر حصوں میں گئے اور مصالحے، شیشے کے برتن، کھال، پھل اور قیمتی پتھر واپس آئے۔
چینی صدر نے کہا تھا کہ آج جب میں یہاں کھڑا ہوں اور تاریخ کے اس واقعہ پر نظر ڈالتا ہوں تو مجھے پہاڑوں میں اونٹوں کی گھنٹیاں گونجنے کی آوازیں سنائی دیتی ہیں اور صحرا سے اٹھتی دھول دکھائی دے رہی ہے۔
چینی صدر کی تقریر پرانی یادوں پر مرکوز نہیں تھی۔ اس کے بجائےانہوں نے قدیم شاہراہ ریشم کے کامیاب تجارتی راستوں سے ترغیب حاصل کی اور "شاہراہ ریشم کے ساتھ اقتصادی راستے " کی تعمیر کا خیال پیش کیا۔
ایک ماہ بعد انڈونیشیا میں چینی صدر شی نے 21 ویں صدی کی سمندری شاہراہ ریشم کی تعمیر کی تجویز پیش کی جو اقتصادی راستے کی تجویز کے ساتھ مل کر بالآخر بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو بن گئی۔
یہ اقدام کھلے پن اور زیادہ جامع ترقی کو فروغ دیتا ہے۔ چینی صدر کا کہنا تھا کہ کسی ملک میں مزید کھلے پن سے زیادہ طاقت اور خوشحالی آتی ہے۔
گزشتہ ایک دہائی میں 151 ممالک اور 32 بین الاقوامی تنظیموں نے بی آر آئی فریم ورک کے تحت دستاویزات پر دستخط کئے ہیں۔
اس اقدام سے تقریباً 10 کھرب امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری ہوئی، اس کے راستوں کے ساتھ ممالک میں تقریباً 4 لاکھ 20 ہزار ملازمتیں پیدا ہوئی اور تقریباً 4 کروڑ افراد کو غربت سے نکالا گیا۔