لان ژو (شِنہوا) ایک بین الاقوامی تحقیقی ٹیم نے نظام ہاضمہ کی بیماری "سیلیاک" کا نیا علاج دریافت کرلیا ہے۔
جامعہ لان ژو کے مطابق چینی، پاکستانی اور دیگر غیرملکی محققین کی جانب سے کی جانے والی یہ تحقیق جرنل فوڈ ریسرچ انٹرنیشنل میں شائع ہوئی ہے۔
اس تحقیق کے سربراہ اور چین کے شمال مغربی صوبہ گانسو کی جامعہ لان ژو میں پاکستانی پوسٹ ڈاکٹرل فیلو امان خان برسوں سے "سیلیاک" کے علاج بارے تحقیق میں مصروف ہیں۔
امان کے مطابق گلوٹین کے استعمال سے پیدا ہونے والی مدافعتی خرابی کی یہ بیماری پاکستان سمیت ایشیائی ممالک میں عام ہے کیونکہ یہاں زیادہ تر آٹے سے تیار کردہ کھانا کھا یا جا تا ہے جس میں گلوٹین ہوتا ہے۔ انہوں نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ وہ اپنے علم کو متاثرہ افراد کی مدد کے لئے استعمال کریں گے۔
جامعہ لان ژو کے ماتحت ماحولیاتی مائیکروبائیولوجی گروپ کے پروفیسر اور اپنے مشیر لی شیانگ کائی کی مدد سے امان پاکستانی خمیر شدہ کھٹی روٹی سے پروبائیوٹک بیکٹیریا کی اقسام کو الگ کررہے ہیں تاکہ انہیں "سیلیاک" بیماری کو روکنے میں استعمال کیا جاسکے۔
امان کے مطابق "سیلیاک" بیماری کے علاج پر کام کرنے کا خیال ان کے گروپ کی گزشتہ تحقیق سے آیا ہے۔انہوں نے ایک روایتی خمیر شدہ غذا "جیانگ شوئی" سے ایک پروبائیوٹک ریشے کو الگ کیا جو یورک ایسڈ کم کرکے آنتوں کے مائیکروبائیوٹا کو قابو کرسکتا ہے۔
اس کے بعد انہوں نے اس قسم کے ساتھ دہی بنایا اور ہائپریوریسیمیا کے ساتھ 120 رضاکاروں پر 2 ماہ تک انسانی آزمائش کی جس کے نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ جیانگ شوئی دہی میں یورک ایسڈ کی انتہائی کمی ہوئی۔
اپنے مشیر کی رہنمائی میں امان اور ٹیم کے ارکان نے کامیابی کے ساتھ ایل زیڈ یو- جی ایم نام کے پروبائیوٹک بیکٹیریا کی اقسام کو پاکستانی خمیرشدہ کھٹی روٹی سے الگ کیا اور چوہوں پر تجربات کا ایک سلسلہ مکمل کیا۔
امان نے بتایا کہ ان کے تجربات کے نتائج اور مربوط تجزیہ سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ایل زیڈ یو ۔ جی ایم یہ ثابت کرتا ہے کہ یہ چوہوں میں گلوٹین ایڈیٹیو فوڈ کے منفی اثرات دورکرسکتا ہے اور آنتوں کے مائیکروبائیوٹا کو متوازن بناسکتا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ "سیلیاک" کے علاج کے طور پر خمیر شدہ کھٹی روٹی میں پروبائیوٹکس کی حفاظت اور افادیت کا تعین کرنے کے لئے مزید کلینیکل ٹرائلز کی ضرورت ہوگی۔
لی شیانگ کائی نے بتایا کہ وہ پاکستانی کھٹی روٹی سے الگ ہونے والے جی ایم اسٹرین کے ساتھ دہی بنائیں گے اور پاکستان میں اس بارے تجربات جاری رکھیں گے۔
لی نے مزید کہا کہ "ہمیں یقین ہے کہ نیا حل سیلیاک بیماری کے علاج میں ایک تھراپیٹک معاون ایجنٹ ثابت ہوگا۔