تیونس(شِنہوا)چین اور تیونس کے درمیان تہذیبوں کے تبادلے اور مکالمے سے دونوں ممالک کی مشترکہ ترقی اور خوشحالی کو فروغ حاصل ہو گا۔
یہ بات چینی ایسوسی ایشن برائے بین الاقوامی مفاہمت (سی اے ایف آئی یو) کے صدر جی بنگ شوان نے سی اے ایف آئی یو اور تیونس کے قومی ورثہ انسٹی ٹیوٹ (آئی این پی ) کی طرف سے مشترکہ طور پر تیونس کے دارالحکومت میں منعقدہ چینی-تیونسی ثقافتی اور تہذیبوں کے تبادلے کی کانفرنس سے خطاب میں کہی جس میں چینی اور تیونس کے محققین، ماہرین تعلیم اور تاریخ دانوں نے شرکت کی۔
جی نے کہا کہ چین کے تجویز کردہ عالمی تہذیبی اقدام کا مقصد مختلف تہذیبوں کے درمیان بقائے باہمی اور باہمی طور پر سیکھنا ہے اور یہ انسانی معاشرے اور دنیا کی مختلف تہذیبوں کی جدید کاری کے عمل کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
اس موقع پر آئی این پی کے ڈائریکٹر طارق باکوچے نے اپنی تقریر میں کہ حالیہ برسوں میں چین اور تیونس کے درمیان ثقافتی تعاون میں اضافہ دیکھا گیا ہے اور اس سال شروع کیا گیا چین-تیونس مشترکہ آثار قدیمہ کا منصوبہ بہتر انداز میں آگے بڑھ رہا ہے۔
باکوچے نے کہا کہ 2024 میں چین اور تیونس کے درمیان سفارتی تعلقات کے قیام کی 60ویں سالگرہ منائی جارہی ہے اور دونوں فریقوں کے درمیان تعاون بلند سطح تک پہنچ جائے گا۔