اسلام آباد (شِنہوا) ایک پاکستانی ماہر اقتصادیات نے ایک انٹرویو میں شِنہوا کو بتایا ہے کہ چین نے نوول کرونا وائرس سے نمٹنے کے اپنے اقدامات کو بہتر بنایا ہے جس سے متعدد غیر ملکی کاروبار اور سرمایہ کار ملک میں سرمایہ کاری کرنا شروع کر رہے ہیں۔
اسلام آباد میں قائم تھنک ٹینک سسٹین ایبل ڈیویلپمنٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے معاشی مشیر بدیع شوکت نے کہا کہ بھاری غیر ملکی سرمایہ کاری چین میں آ رہی ہے تاکہ وہ اپنی تجارت کو بڑھانے میں اپنا کردارادا کرسکیں اور یقیناً چین میں ان کی آپریٹنگ لاگت نسبتا بہت کم ہو گی۔
شوکت نے کہا کہ پالیسی بہتر بنانا وقت کی ضرورت ہے کیونکہ پوری دنیا کو تجارت کی اشد ضرورت ہے، اس میں خاص طور پر ٹیکنالوجی اور صحت کا شعبہ شامل ہے۔
انہوں نے کہا کہ نوول کرونا وائرس نے پوری عالمی سپلائی چین کو درہم برہم کردیا ،بہت سے ممالک نے اپنی تجارتی سرگرمیوں پر پابندیاں لگادیں۔ تاہم چین میں انسداد وبائی امراض کے موثر اقدامات کے سبب کاروبار فعال رہے جس سے بین الاقوامی طلب کو پورا کرنے میں کافی حد تک مدد ملی۔
شوکت نے کہا کہ چین کے نوول کرونا وائرس سے نمٹنے کے اقدامات میں اصلاح سے چینی برآمدات میں نمایاں اضافہ ہوگا۔ ملک کو روزگار کے مواقع بڑھانے، کھپت میں تیزی اور افراط زر کو کنٹرول کرنے میں مدد ملے گی۔
انہوں نے کہا کہ چین کی ڈیجیٹل معیشت دنیا بھر میں دوسرے نمبر پر ہے۔ یہ ملک میں ترقی کا ایک بڑا ذریعہ ہے جس سے 2023 میں مجموعی طور پر معاشی سرگرمی کو فروغ ملنے کا امکان ہے۔
شوکت نے کہا کہ دنیا تیزی سے ڈیجیٹل نیٹ ورکنگ اور مالیاتی شمولیت پر انحصار بڑھارہی ہے اور چین میں ایک اچھا ڈیجیٹل نظام قائم ہے۔
چائنیز اکیڈمی آف سائبر اسپیس اسٹڈیز کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق 2021 میں چین کی ڈیجیٹل معیشت کی مالیت تقریباً 63 کھرب امریکی ڈالرز تک پہنچ گئی جو ملک کی مجموعی ملکی پیداوار کا 39.8 فیصد ہے۔
لہذا نئی پالیسیوں کے ساتھ چینی ڈیجیٹل معیشت کی جانب سے عالمی ڈیجیٹل معیشت میں بڑی شمولیت اور فروغ دیکھیں گے۔
خوراک اور آب و ہوا کے عالمی بحرانوں پر روشنی ڈالتے ہوئے شوکت نے کہا کہ چین بین الاقوامی سطح پر ان کے اثرات کم کرنے میں ان شعبوں میں سرمایہ کاری بڑھانے پر خصوصی توجہ دے رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وبائی مرض اور بہت سے تنازعات سے بین الاقوامی سطح پر خوراک کی قیمتوں میں اضافہ دنیا کے لئے ایک بڑی تشویش ہے۔ چینی معیشت میں اضافے سے بین الاقوامی قیمتوں خاص طور پر غذائی افراط زر پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔